أُولَٰئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ۘ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ۚ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ
وہ ملک میں (بھاگ کر) تھکا نہ سکیں گے ، اور اللہ کے سوا ان کا کوئی دوست نہ ہوگا ، ان کو دونا عذاب ملے گا ، اس لئے کہ وہ دیکھتے نہ تھے (ف ٢) ۔
فہم القرآن : (آیت 20 سے 22) ربط کلام : آخرت کا انکار کرنے اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے لوگوں کی دنیا میں حیثیت اور آخرت میں ان کا انجام۔ آخرت کا انکار کرنے والے دنیا میں تو حقائق کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایا جانا۔ لیکن قیامت کے دن جی اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے سے انکار نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اٹھائے گا اور انھیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہ اپنی پیشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ انسان جب اللہ کی ذات کا منکر اور آخرت کا انکاری ہوجائے تو پھر اس کے گناہ اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور آخرت کے انکار کی وجہ سے وہ اس حد تک باغی بن جاتا ہے کہ اس کی ذات اور اس کے کام لوگوں کے لیے اللہ کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ منفی فکر اور خودسری کی وجہ سے سرعام انبیاء سے مطالبہ کرتے تھے کہ اگر ہم واقعی مجرم ہیں تو ہماری گرفت کیوں نہیں ہوتی۔ ان کی ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ انہیں ڈھیل دینا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ ورنہ یہ اور ان کے پیرو مرشد اللہ کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ دنیا میں انہیں مہلت دینے کا یہ معنی نہیں کہ قیامت کے دن بھی یونہی چھوٹ جائیں گے، بلکہ انہیں اور ان کی وجہ سے جو لوگ گمراہ ہوئے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سننے کے لیے کان دیے اور دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا فرمائیں۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ اور گم ہوگیا ان سے جو تھے وہ وہ افترا باندھتے ہی کی عطا کردہ صلاحیتوں سے حقیقی فائدہ نہ اٹھایا۔ مرید غلط پیروں کی وجہ سے اور ور کر اپنے لیڈروں کے پیچھے اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے پیروں کی وجہ سے ان کے مرید گمراہ ہوئے اور پھر دوسروں کو گمراہ کرتے رہے۔ اس بنا پر یہ لوگ اپنے اور دوسروں کے گناہوں کے ذمہ دار ٹھہرے۔ جس وجہ سے انہیں دوگنا عذاب ہوگا۔ لہٰذا یہ لوگ نقصان میں ہونگے اور آخرت کا نقصان ناقابل تلافی اور سب سے بڑا نقصان ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ بھاری اور نہ ختم ہونے والا نشان پائیں گے۔ اس وقت پیر اپنے مرید اور لیڈر اپنے ور کروں کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ بلکہ جہنم کا عذاب دیکھ کر اس قدر حواس باختہ ہوں گے کہ دنیا کے تعلقات اور دعوے سب بھول جائیں گے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی عاجز نہیں کرسکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ 3۔ گمراہی کے ذمہ دار لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ 4۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے خسارہ پائیں گے۔ 5۔ قیامت کے دن معبودان باطل نظر نہیں آئیں گے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن مجرموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا : 1۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود :20) 2۔ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (البقرۃ:107) 3۔ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ:120) 4۔ اللہ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد :37) 5۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت :22) 6۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (الشوریٰ:31)