قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ
تو کہہ ، لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب سے کلام حق آیا ، اب جو کوئی راہ پر آئے ، تو وہ اپنی جان کے لئے راہ پر آتا ہے ، اور جو گمراہ ہو ، تو وہ اپنی جان پر گمراہ ہوتا ہے ‘ اور میں تمہارا وکیل نہیں ہوں (ف ١) ۔
فہم القرآن : (آیت 108 سے 109) ربط کلام : اس آیت سے چار آیات قبل حکم تھا کہ اے رسول (ﷺ) لوگوں کو فرمائیں اگر تمہیں میرے عقیدہ اور دین کے بارے میں شک ہے تو میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے مجھے اپنے طریقہ پر اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے دیجیے۔ اب ارشاد ہوتا ہے یہی حق ہے جو تمہارے رب کی طرف سے تم تک پہنچ چکا ہے۔ جو حق کی پیروی کرے گا اس کا فائدہ اسے ہی پہنچے گا اور جس نے توحید کا عقیدہ چھوڑ دیا۔ اس کا وبال اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اور مجھے تم پر وکیل بنا کر نہیں بھیجا گیا وکیل کا معنی ہے دوسرے کے کام کا ذمہ دارہونا۔ نبی کا کام حق پہنچانا ہوتا ہے منوانا نہیں۔ لہٰذا اے نبی (ﷺ) ! آپ اسی کی اتباع کریں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور لوگوں کی مخالفت پر حوصلہ رکھیں اور پوری دلجمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچے اللہ تعالیٰ بہترین حاکم ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد ظالموں پر عذاب اور حق والوں کی کامیابی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ إِنَّ اللَّہَ قَالَ إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِی بِحَبِیبَتَیْہِ فَصَبَرَ عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ)[ رواہ البخاری : باب فضل من ذھب بصرہ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا جس کو اللہ تعالیٰ اس کی دو محبوب (آنکھوں) چیزوں کے ساتھ آزماتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اللہ اس کے عوض اسے جنت عطا فرمائیں گے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ 2۔ حق کا راستہ اپنانے والے کو اس کا فائدہ ہوگا۔ 3۔ گمراہی اختیار کرنے والے کو اس کا نقصان ہوگا۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) کسی کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں تھے۔ 5۔ نبی کریم (ﷺ) کو وحی کی تابعداری کا حکم دیا گیا۔ 6۔ دین کے راستے میں مشکلات آئیں تو صبر سے کام لینا چاہیے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں : 1۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے۔ (یونس :109) 2۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔ اس کا حکم ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے۔ (یوسف :40) 3۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ:1) 4۔ اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (البقرۃ :113) 5۔ قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ (النحل : 124، النساء :141)