فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
پھر اگر وہ مانیں تو کہہ مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اس پر بھروسا کیا ، اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے ۔
فہم القرآن : ربط کلام : اے نبی کریم (ﷺ) ! آپ کے اخلاص، بے مثال جدوجہد، ہمدردی اور خیر خواہی کے باوجودلوگ انحراف کرتے ہیں تو آپ کو ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو ہر حال میں اپنے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کے آخر میں نبی پاک کو تسلی دینے کے ساتھ یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرف سے اعراض ہویا ان کی طرف سے آپ کے بارے میں عدم توجہ اور انحراف۔ آپ کو کسی صورت میں بھی دل چھوٹا اور حوصلہ نہیں ہارنا کیونکہ آپ عرش عظیم کے مالک کے نمائندہ ہیں اس لیے آپ کو لوگوں کی مخالفت اور ان کی عدم توجہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ آپ کی دعا، عقیدہ اور عمل یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں اور اسی پر میرا بھروسہ ہے جو عرش عظیم کا رب ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس بنا پر دنیا کا کوئی خوف اور لالچ مومن کے قدموں میں تزلزل پیدا نہیں کرسکتا یہی عقیدہ اور وظیفہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جھونکا جارہا تھا تو ملائکہ آکر ان کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو یہ آگ نمرود اور اس کے ساتھیوں پر الٹا دی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ کیا ایسا کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے ملائکہ نے کہا کہ اب تک حکم نازل نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : ” حسبی اللّٰہ“ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ ادھرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب پر بھروسہ اور اعتماد کی انتہا کردی ادھر آسمان سے آگ کو حکم نازل ہوا۔ ﴿وَقُلْنَا یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ﴾[ الانبیاء :69] ” اور ہم نے کہا اے آگ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا۔“ یہی وہ وظیفہ اور عقیدہ ہے کہ جب نبی اکرم (ﷺ) ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے استراحت فرما تھے۔ اچانک ایک بدو نے آپ کی تلوار پکڑ کر یہ کہتے ہوئے آپ کے سر پر لہرائی کہ اے محمد! تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ بچانے والا ہے بدو کا وجود کانپنے لگا اتنے میں آپ نے اس سے تلوار اچک لی اور فرمایا تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے معذرت کی اور حلقہ اسلام میں داخل ہوا۔ یہی وہ عمل اور ذکر ہے کہ جب احد کے میدان میں صحابہ کرام (رض) کو شکست ہوئی اور وہ زخمی حالت میں مدینہ پہنچے تو کفار کے سردار ابو سفیان کا پیغام آیا کہ ہم مدینہ میں پہنچ کر تمہیں تہس نہس کرنے والے ہیں۔ اس کے رد عمل میں صحابہ کرام (رض) ” حسبنا اللہ“ پڑھتے ہوئے کفار کے لشکر کے تعاقب میں نکلے جس کے نتیجہ میں ابوسفیان نے مکہ کی راہ لینے میں عافیت سمجھی اور صحابہ کرام (رض) اپنے مقصد میں کامیاب مدینہ پلٹے۔ ﴿وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا ﴾[ الطلاق :3] ” جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے اللہ اپنے کام کو پورا کردیتا ہے اور ہر چیز کا اللہ نے اندازہ مقرر فرمایا ہے۔“ مسائل : 1۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ 2۔ صرف اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے عرش کا مالک ہے۔ 4۔ سب لوگ منہ موڑ جائیں تو مومن کے لیے اللہ ہی کافی ہوتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ تفسیر بالقرآن : مومن کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے : 1۔ مومن کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے۔ (المجادلۃ:10) 2۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 3۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ:129) 4۔ جب کسی کام کا ارادہ کرلو تو اللہ پر توکل کرو۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران: 59) 5۔ اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔ (ہود :123) 6۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ:23) 7۔ اللہ پر توکل کیجیے، وہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب :3) 8۔ اللہ پر توکل کرو یقیناً آپ واضح حق پر ہیں۔ (النمل :79) 9۔ اس ذات پر توکل کرو جو زندہ ہے اور اسے موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان :58)