سورة البقرة - آیت 129

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے ہمارے رب اور ان کے بیچ انہیں میں سے ایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں ان پر پڑھے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں سنوارے ، تو ہی زبردست حکمت والا (پختہ کار) ہے ۔ (ف ١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ {ﷺ}کی نبوت کے لیے خصوصی دعا جس میں واضح ثبوت ہے کہ آخری نبی بنی اسماعیل میں سے مکہ میں ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہورہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دعا اس وقت کی جب انہوں نے اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تھا۔ کچھ دعائیں تعمیر کعبہ کے دوران اور باقی تکمیل کے بعد اللہ کے حضور کی گئیں۔ آخری دعا میں ایک ایسے نبی کی ضرورت کا تذکرہ ہے جو نا صرف اسی قوم سے ہو بلکہ اس کی پیدائش بھی مکہ معظمہ میں ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس دعا میں نبوت کی غرض و غایت اور اس کے چار بنیادی فرائض کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری دعاؤں کے ساتھ اس دعا کو بھی شرف قبولیت بخشتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی آخر الزماں کی بشارت سے نوازا۔ (قَدْ أُسْتُجِیْبَ لَکَ وَہُوَ کَائِنٌ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ) [ تفسیر ابن کثیر ] ” کہ تیری دعا مقبول ہے اور وہ نبی آخر زمانہ میں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ {رض}قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا کَانَ أَوَّلُ اَمْرِکَ قَالَ دَعْوَۃُ أَبِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَبُشْرٰی عِیْسٰی وَرَأَتْ أُمِّیْ أَنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ مِنْھَا قُصُوْرُ الشَّامِ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب حدیث أبی امامۃ الباہلی الصدی بن عجلان] ” حضرت ابو امامہ {رض}بیان کرتے ہیں میں نے رسول محترم {ﷺ}سے پوچھا کہ آپ کی نبوت کی ابتدا کس چیز سے ہوئی؟ آپ {ﷺ}نے فرمایا : میرے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری ماں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محل روشن ہوگئے۔“ مسائل : 1۔ کتاب اللہ کی تبلیغ، تعلیم، لوگوں کو دانش سکھلانا اور تربیت کرنا نبوت کے بنیادی کام ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔