كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
جس طرح تم سے اگلے تھے ، وہ قوت اور مال ، اور اولاد میں تم سے زیادہ تھے ۔ سو اپنے نصیب کا فائدہ دنیا میں اٹھا گئے ، پھر تم نے بھی اپنے نصیب کا فائدہ اٹھا لیا ، جیسے تم سے اگلے اپنے نصیب کا فائدہ اٹھا گئے ، اور تم نے ویسی بحث کی جیسے وہ کر گئے ، ان کے اعمال دنای اور آخرت میں ضائع ہوئے اور وہی زیان کار رہے (ف ١) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین بھی پہلی قوموں کی طرح مغضوب ہیں جس طرح ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوئے اسی طرح منافقین کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوں گے۔ جس طرح ان پر دنیا میں اللہ کا غضب ہوا۔ منافقوں پر بھی اللہ کا غضب ہوگا۔ عربی زبان میں ” ک“ کا حرف تشبیہ اور مانند کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں منافقین کی مغضوب اور ملعون قوموں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو مال و اسباب، اولاد اور افرادی قوت کے لحاظ سے بڑے کشادہ ہاتھ اور طاقت ور تھے۔ لیکن جب ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا تو ان کے مال واسباب اور اولاد انھیں کچھ فائدہ نہ دے سکے بلکہ وہ بھی ان کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گئے۔ اس اشارے اور تشبیہ کے بعد منافقین کو وارننگ دی گئی ہے کہ جو کچھ تمھیں دیا گیا ہے۔ تم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھالو جس طرح مغضوب اور ملعون لوگوں نے اٹھایا تھا۔ لیکن یاد رکھو جس طرح ان پر غضب ہوا تم پر بھی اسی طرح غضب ہوگا۔” خَلَاقُ“ کا معنی ہے حصہ جس طرح انھوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا تمھارے لیے بھی جو حصہ عمر اور وسائل کے حوالے سے مقرر کیا گیا ہے فائدہ اٹھالو۔ اس میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ انسان جس قدر باغی ہو اور جتنا چاہے دنیا میں بھاگ دوڑ کرلے وہ اللہ تعالیٰ کی مقررکی ہوئی حدود اور وسائل سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ بھلاہے وہ انسان جو اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا اور آخرت سنوارلے۔ لیکن منافق اور خدا کے نافرمان اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ وہ دنیا کے عارضی وقار اور وسائل کی خاطر اپنے رب کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں جیسا کہ ان سے پہلے لوگ دنیا طلبی میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کے دنیا اور آخرت دونوں میں اعمال ضائع ہوئے اور وہ نقصان پانے والے بنے۔ اسی طرح ہی منافقوں کا حال ہوگا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِیِّ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ)۔۔ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ)۔۔إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فیمَا یَبْدُو للنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّار فیمَا یَبْدُو للنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب لایقول فلان شہید] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ بندہ بعض اوقات اہل جنت کے اعمال سر انجام دیتا ہے لوگوں کے لیے بھی ایسے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوتا ہے اور بلاشبہ کوئی بندہ جہنمیوں والے کام کرتا ہے اور لوگوں کو بھی ایسے ہی نظر آتا ہے جبکہ وہ اہل جنت سے ہوتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ کی پکڑ آنے پر منافق کو اس کی اولاد اور مال کچھ فائدہ نہیں دیتے۔ 2۔ منافقین کے اعمال پہلی مغضوب قوموں کی طرح ضائع ہوں گے۔ 3۔ منافقین دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مغضوب قومیں مال اور اولاد میں زیادہ ہوتی ہے : 1۔ لوگوں کو مال اور اولاد کی کثرت نے ہلاک کردیا۔ (التکاثر :1) 2۔ کافروں نے کہا ہم مال و اولاد کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ (سبا :35) 3۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے۔ (حٰمٓ السجدۃ:15) 4۔ دنیا کی زندگی کھیل، تماشہ، زینت، مال و اولاد کی کثرت ہے۔ (الحدید :20)