الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
منافق مرد ، اور منافق عورتیں سب کی ایک چال ہے ، بری بات کرنے کو ، اور بھلی بات نہ کرنے کو کہتے ، اور اپنی مٹھی خرچ سے بند رکھتے ہیں ، خدا کو بھول گئے سو وہ انہیں بھول گیا ، بےشک منافق ہی فاسق ہیں (ف ١) ۔
فہم القرآن : (آیت 67 سے 68) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ ضرور مخلص ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ اور مشن ایک ہوتا ہے۔ منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مشن برے کاموں کی تلقین اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا، نیکی کے معاملات میں رکاوٹ ڈالنا اور دین کی راہ میں روڑے اٹکانا، مسلمانوں کے صدقہ و خیرات کے بارے میں حوصلہ شکنی کرنا اور خود کنجوسی اختیار کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو فراموش کردینا۔ منافقین کا مشغلہ ہوتا ہے۔ ان اعمال کا بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے بھلا دینے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا حافظہ بھول جاتا ہے۔ بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و کرم سے دور کردیتا ہے۔ تاکہ گناہ کرنے میں ان کی حسرت باقی نہ رہے۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں، اللہ تعالیٰ کو منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کفار پر اس قدر ناراضگی ہے کہ سزا سناتے ہوئے چار تاکیدی الفاظ استعمال کرکے فرمایا کہ ان کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں جہنم میں ضرور پھینکے گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کرکسی کا وعدہ سچا اور پکا نہیں ہوسکتا۔ ان کو اس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ جہنم ان کے لیے کافی ہے۔ یعنی اس میں انھیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی رہے گی اور ان پر عذاب جہنم قائم دائم رہے گا جس میں کبھی تخفیف نہ ہوگی۔ ایک جیسے الفاظ میں منافقین اور کفار کی سزا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ منافق بے شک تمام کام بظاہر مسلمانوں کی طرح کرتے اور اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن عملاً یہ کافر ہیں۔ اس لیے آخرت میں انھیں اکٹھا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ برائی کی بنیاد قائم کرنے والے کی سزا : (عن عائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) رَأَیْتُ جَہَنَّمَ یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا وَرَأَیْتُ عَمْرًا یَجُرُّ قُصْبَہٗ وَہْوَ أَوَّلُ مَنْ سَیَّبَ السَّوَائِبَ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ﴿ مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَة ﴾] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا تھا اور میں نے اس میں عمرو کو دیکھا جو اپنی چادر کو گھسیٹ رہا تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے ” بحیرہ اور سائبہ“ کا رواج ڈالاتھا“ مسائل: 1۔ منافق مرد، منافق عورتیں اور کفار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ 2۔ ان پر مسلسل اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی رہے گی۔ 3۔ ان پر ہمیشہ عذاب قائم رہے گا۔ تفسیر بالقرآن : منافقوں کا کردار اور انجام : 1۔ منافق اللہ کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔ (النساء :142) 2۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء :145) 3۔ اے نبی منافقین اور کفار کے ساتھ سختی سے جہاد کریں۔ (التوبۃ: 73، التحریم :9) 4۔ کفار اور منافقین کے ساتھ اللہ کا وعدہ جہنم کا ہے۔ (التوبۃ:68)