يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ
منافق اس بات سے ڈرتے ہیں کہ تم پر کوئی ایسی سورت اترے ، جس میں ان کے دل کی خبر انکو دی جائے تو کہہ تم ٹھٹھا کرتے رہو ‘ خدا وہی بات نکالے گا ، جس سے تم ڈرتے ہو (ف ٢) ۔
فہم القرآن : (آیت 64 سے 66) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقوں کا اپنے دل ہی دل میں خوف زدہ رہنا۔ منافق دوغلا ہوتا ہے دو غلاشخص اخلاقی لحاظ سے اندر سے کھوکھلا اور ضمیر کا چور ہوتا ہے کیونکہ وہ مختلف لوگوں سے ایک ہی بات مختلف مفہوم اور مذموم مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے اسے ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر لوگوں کو میری بات کی اصلیت کا پتہ چل گیا تو میں ہر طرف سے ذلیل اور لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوجاؤں گا۔ یہ خوف اسے ہر وقت بے چین رکھتا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کے زمانے میں منافقین کی یہی حالت تھی وہ ہر وقت ڈرے اور سہمے رہتے تھے کہ نہ معلوم اللہ کے رسول پر کب وحی نازل ہوجائے جس میں ہماری سازشوں کو طشت ازبام کردیا جائے اور ہماری باتوں کی قلعی کھول دی جائے۔ بالخصوص غزوۂ تبوک کے موقع پر انھوں نے مسلمانوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ یہ ہیں وہ جیالے جو سلطنت روما کو فتح کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ ایک کہتا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کل رومی جرنیل اچھی طرح ان کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پہنائے۔ دوسرا کہنے لگا مزا تو یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان کی پیٹھوں پر کوڑے برستے ہوئے دیکھیں۔ اسی طرح وہ قرآن مجید کی پیش گوئیوں اور نبی اکرم (ﷺ) کے ارشاد ات کو استہزا کا نشانہ بناتے۔ جب ان کی باتیں رسول معظم (ﷺ) تک پہنچتیں اور آپ کبھی کبھار ان کی تفتیش کرتے تو یہ لوگ جھوٹا حلف دے کر کہتے کہ ہم تو دل لگی اور شغل کے طور پر باتیں کر رہے تھے۔ اس پر انھیں ڈانٹا گیا ہے کہ تم کس قدر ناعاقبت اندیش ہو کہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو؟ جب تم سے پوچھا جاتا ہے تو مختلف قسم کے بہانے بنا کر معذرت کرتے ہو۔ اب تمھاری معذرتوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تم ایمان کے دعویدار ہو کر کفر کا مسلسل ارتکاب کرر ہے ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ تم سے درگزر کرتا ہے لیکن ان لوگوں کو ضرور عذاب دے گا جو سرغنہ ہیں۔ یہاں معاف کردینے کا اشارہ فرما کر چھوٹے منافقین کے لیے ایک دفعہ پھر معافی کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنے کردار پر نظرثانی کرسکیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے منافقوں میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اللہ کے رسول کی سواری کے پیچھے اس حال میں دوڑ رہا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور وہ رسول معظم (ﷺ) سے فریاد کر رہا تھا کہ جو باتیں آپ تک پہنچی ہیں ہم نے محض خوش طبعی اور دل لگی کے لیے کی تھیں لیکن رسول اکرم (ﷺ) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو ؟ (رازی) مسائل : 1۔ منافق اللہ کی ذات، اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے۔ 2۔ اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول کو مذاق کرنا کفر ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ایک ایک سرغنہ کو دنیا میں ذلیل کیا اور قیامت کو منافقوں کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : منافق دین کو کھیل تماشہ سمجھتے ہیں : 1۔ اے ایمان والو ! اہل کتاب اور کفار کی طرح دین کو کھیل تماشہ نہ سمجھ۔ (المائدۃ:57) 2۔ جب منافقوں کو نماز کے لیے بلایا جاتا تو اسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں۔ (المائدۃ:58) 3۔ کافروں نے میری آیات اور میرے ڈرانے کو کھیل تماشہ سمجھ لیا۔ (الکہف :56) 4۔ ان کافروں کی سزا جہنم ہے جنھوں نے میری آیات اور رسولوں کو مذاق سمجھا۔ (الکہف :106)