سورة البقرة - آیت 116

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ، حالانکہ وہ پاک ذات (سب سے نرالا ہے) بلکہ زمین اور آسمان اسی کا ہے اور سب اس کے آگے ادب سے (فرمانبردار) ہیں (ف ٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 116 سے 117) ربط کلام : جب زمین و آسمان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ تو اسے اولاد کی کیا ضرورت وہ تو کن کہتا ہے اور ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق معرض وجود میں آجاتی اور اس کی غلامی میں لگ جاتی ہے۔ اولاد کی حاجت انسان کو ہے اللہ تعالیٰ ان حاجات اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ سلسلۂ کلام سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ انبیاء کے گستاخ، دین کے لیے ننگ و عار‘ عبادت خانوں کی بے رونقی کا باعث اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والے ہیں۔ جس کی بنا پر یہودیوں نے جناب عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہا اور عیسائیوں نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا بیٹا ٹھہرایا۔ مشرکین مکہ نے بتوں کو خدا کا اوتار تصور کیا اور کچھ اقوام نے ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ یہاں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں وہ اس کمزوری سے بالکل مبرّا اور پاک ہے کیونکہ اولاد سلسلۂ نسب کے تسلسل کے لیے ضروری‘ انسان کی ضرورت اور اس کی طبعی محبت کا تقاضا ہے۔ آدمی کی اولاد نہ ہو تو وہ اپنے گھر ہی میں ویرانی، بے رونقی اور تنہائی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور بے سہارا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ان تمام کمزوریوں سے مبرّا ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی نہ سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تنہائی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کی محبت میں مبتلا ہے۔ حاکم کل اور قادر مطلق ہے۔ کیونکہ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔ اس نے زمین و آسمان کو بغیر نقشے اور میٹریل کے پیدا کیا وہ تو صرف اتنا حکم دیتا ہے کہ ہو جاوہ چیز ٹھیک ٹھیک اس کے حکم کے مطابق معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ اس سے ان اقوام اور سائنسدانوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جن کا کہنا ہے کہ روح اور مادہ تو پہلے ہی موجود چلا آ رہا ہے۔ خدا تو صرف اسے ایک شکل اور وجود دینے والا ہے۔ (قَال النَّبِیُّ {}قَال اللّٰہُ کَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ فَأَمَّا تَکْذِیْبُہٗ إِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَأَنِیْ وَلَیْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ إِعَادَتِہٖ وَأَمَّا شَتْمُہٗ إِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَأَنَاالْأَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْوَلَمْ یَکُنْ لِیْ کُفْوًا أَحَدٌ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیرا لقرآن، باب یقال لاینون أحد أی واحد] ” نبی {ﷺ}نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے یہ اس کے لیے جائز نہیں۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اسے یہ بھی زیب نہیں دیتا۔ اس کا یہ کہنا کہ جس طرح اللہ نے مجھے پیدا کیا ہے دوبارہ ہرگز نہیں لوٹائے گا مجھے جھٹلانے کے مترادف ہے حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا دوسری بار لوٹانے سے مجھ پر بھاری نہیں۔ ابن آدم کا یہ کہنا کہ اللہ کی اولاد ہے مجھے برا کہنا ہے حالانکہ میں ایک اور بے نیاز ہوں نہ میں والد ہوں اور نہ ہی مولود اور نہ ہی کوئی میرا ہمسر ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں کیونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی ملک اور تابعدار ہے۔ 2۔ ہر کام اس کے ” کن“ کہنے سے ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ایک ہے : 1۔ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام :101) 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم ( علیہا السلام) اِلٰہ نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ:75) 3۔ اللہ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : 91، 92) 4۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے۔ (الاخلاص :3) زمین و آسمان کی تخلیق : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ :117) 2۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ:29) 3۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ:29) 4۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ :22) 5۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف :54)