مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
نبی کو لائق نہیں ، کہ اس کے پاس قیدی آویں ، جب تک کہ زمین پر (جہادمیں) اچھی طرح خونریزی نہ کرے (ف ٢) ۔ تم دنیا کا مال چاہتے ہو ، اور اللہ آخرت چاہتا ہے ، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔
فہم القرآن : (آیت 67 سے 69) ربط کلام : جنگ کے مسائل کا بیان جاری ہے اب قیدیوں اور مال غنیمت کے بارے میں وضاحت کی جاتی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں تین الفاظ ایسے ہیں جن کا معنی جاننے سے آیت کا مفہوم بہتر طور پر ذہن نشین ہوجائے گا اسرٰی اس تسمے کو کہا جاتا ہے جس سے پرانے زمانے میں لوگ قیدیوں کو باندھا کرتے تھے اثخان کا معنی ہے خون کا گاڑھا ہونا مراد گھمسان کا رن پڑنا یعنی ایسی لڑائی کہ جس میں ایک فریق کی کمر ٹوٹ جائے عَرَضْ دنیا کے ساز و سامان کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ اے نبی! آپ کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ آپ کفار کی کمر توڑے بغیر قیدیوں کو دنیا کے مال کے بدلے رہا کردیتے۔ یہاں قیدیوں کے بارے میں مخاطب نبی اکرم (ﷺ) کو کیا گیا ہے لیکن فدیہ لینے کے بارے میں صحابہ کو مخاطب کیا ہے کیونکہ صحابہ (رض) کے مشورہ اور ان کے فائدے کے لیے ہی نبی (ﷺ) نے قیدیوں سے فدیہ لینا قبول فرمایا تھا اس لیے صحابہ (رض) کو فرمایا کہ تم دنیا کا تھوڑا اور عارضی مال چاہتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آخرت کی بیش بہا اور دائمی نعمتوں کا ارادہ رکھتا ہے اگر تم قیدیوں کا فدیہ لینے کی بجائے ان کو قتل کردیتے تو یہ تمھارے مستقبل کے لیے نہایت ہی بہتر ہوتا۔ جہاں تک غنیمت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ تمھیں آئندہ غزوات میں عطا فرماتا جیسا کہ مسلمانوں کو بے انتہاغنائم سے نوازا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر غالب ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ پہلے سے نہ کر رکھا ہوتا کہ وہ تمھیں بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے پر عذاب نہیں کرے گا تو وہ تمہاری ضرور گرفت کرتا اب تم اس غنیمت سے کھاؤاور اسے استعمال کرو یہ تمھارے لیے حلال اور طیب ہے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ لینے کے بارے میں مفسرین کی دو آرا ہیں ایک فریق کا خیال ہے کہ اس وقت تک قیدیوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا جس وجہ سے آپ (ﷺ) نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کرکے فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ فدیہ لینے کے متعلق حکم ہی نازل نہیں ہوا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل کرنے کا کیا معنی ؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ہاں لوح محفوظ پر لکھ رکھی ہے کہ بدر میں آپ (ﷺ) قیدیوں سے فدیہ لیں گے لیکن اس پر آپ (ﷺ) کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن میرے خیال میں ان مفسرین کا نقطۂ نگاہ زیادہ مضبوط ہے جو یہ فرماتے ہیں کہ سورۃ محمد آیت ٤ میں یہ حکم پہلے نازل ہوچکا تھا کہ جب تم کفار کے ساتھ جنگ کرو تو ان کی اچھی طرح گردنیں مارو یہاں تک کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے اور قیدیوں کو مضبوطی سے باندھ لو پھر چاہو تو انھیں یوں ہی رہا کر دو اور اگر چاہو تو ان سے فدیہ قبول کرو۔ لیکن شرط یہ ہے پہلے کفار کی کمر توڑ دی جائے بدر میں ایسا نہیں ہوسکا تھا۔ جب کفار بدر کا میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ چند صحابہ (رض) کو چھوڑ کرجو رسول معظم کی حفاظت کرتے رہے باقی مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ بعد ازاں ان میں غالب اکثریت کی رائے یہ تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے جس سے ہماری اعانت ہوجائے گی اور شاید کفار بھی احسان شناسی کا مظاہرہ کریں اس رائے میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) اپنی نرم طبع کی وجہ سے پیش پیش تھے لیکن حضرت عمر (رض) حضرت معاذ بن جبل (رض) اور کچھ صحابہ کا خیال تھا کہ ان کی گردنیں اڑا دینی چاہییں تاکہ کفار کی کمر ٹوٹ جائے۔ حضرت عمر (رض) نے یہاں تک عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہر شخص اپنے قریبی رشتہ دار قیدی کو قتل کرے سب سے پہلے میں اپنے عزیزوں کو قتل کروں گا لیکن رسول محترم (ﷺ) نے اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فدیہ لینا قبول کیا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتباہ نازل ہوا۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ﴿ یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا﴾ وَقَالَ﴿ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ﴾ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلٰی السَّمَاءِیَارَبِّ وَمَطَعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ) [ رواہ مسلم : باب قَبُول الصَّدَقَۃِ مِنَ الْکَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِہَا] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم نے فرمایا‘ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک صاف کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے۔۔ پراگندہ بال‘ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب! یارب! جب کہ اس کا کھانا حرام‘ اس کا پینا حرام‘ اس کالباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس حالت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔ مسائل : 1۔ دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ 2۔ تمام انسانوں کی تقدیر پہلے لکھی جا چکی ہے۔ 3۔ مال غنیمت امت محمدیہ کے لیے حلال ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ سے ڈرنے کا حکم : 1۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:194) 2۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور سچی بات کرو۔ (الاحزاب :70) 3۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (البقرۃ:196) 4۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔ (البقرۃ:203) 5۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ تم اس سے ملنے والے ہو۔ (البقرۃ:23) 6۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ (البقرۃ:231) 7۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (البقرۃ:232) 8۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقلمندو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:100) 9۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران :102) 10۔ اللہ سے ڈر جاؤ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ:7)