وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور اللہ کے سب نام اچھے ہیں ، سو تم ان سے اسے پکارو ، اور انہیں چھوڑ دو ، جو اس کے ناموں میں کجی کی راہ چلتے ہیں ، وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے (ف ٢) ۔
فہم القرآن : (آیت 180 سے 183) ربط کلام : جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کرنے کی وجہ یہ بیان فرمائی یہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی آیات سے غافل ہیں جہنم سے نجات پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ عقل و فکر سے کام لے کر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ ہر دور کے کافر اور مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تغافل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرکے نہ صرف اس کی صفات کو اپنے معبودوں میں تصور کرتے ہیں بلکہ ان کے نام اللہ تعالیٰ کے نام پر رکھتے ہیں جو بدترین گناہ اور سنگین جرم ہے۔ ایسے لوگ سمجھانے کے باوجود باز نہ آئیں تو انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے یعنی ان سے قلبی نفرت ہونی چاہیے۔ یہاں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارا کرو اور ان لوگوں کو بالکل چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں۔ انھیں بہت جلد اپنے قول اور فعل کی سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے۔ یہ ایسا عظیم المرتبت اور عظیم الرعب اسم عالی اور گرامی ہے کہ صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت و حیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ﴿ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی﴾ کہلوانے والے بھی ہوئے ہیں۔ مگر اس نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو اللہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ اللہ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خا لقیت، مالکیت، جلالت و صمدیت، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام 2697مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا تعلق ہے ان کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ نام ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہیں دوسرے وہ ہیں جن میں سے کوئی نام کسی آدمی کا بھی رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کریم ہے بہتر تو یہ ہے کہ یہ بھی نام عبدالکریم ہونا چاہیے تاہم کوئی صرف کریم نام رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے کیونکہ کریم کا معنی درگزر کرنے والا اور سخی ہے جو کسی آدمی کی صفت اور نام بھی ہوسکتا ہے لیکن انسان کی کریمی اور اللہ تعالیٰ کی کریمی کا آپس میں کوئی تعلق اور نسبت نہیں ہو سکتی۔ نبی رحمت (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام بتلائے ہیں جس نے ان کو یاد کرلیا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یاد کرنے سے مراد صرف حفظ کرنا نہیں بلکہ ان کے مطابق انسان کا عقیدہ بھی ہونا چاہیے۔ (بخاری کتاب التوحید) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنہ کے ساتھ پکارنے کا حکم دے کر یہ تلقین فرمائی ہے کہ ﴿وَذَرُوْاالَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِیْٓ أَسْمَآئِہٖ﴾ اس کے نام میں الحاد یہ ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں وہ کسی زندہ، مردہ یا کسی کمپنی کا نام رکھا جائے جس طرح آج کل بعض مسلمان جہالت کی بناء پرکسی جنرل سٹور کا نام الرحیم یا الرحمن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشکل کشا ہے اور آدمی کسی دوسرے کو بھی مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے اس کو اس نام سے پکارے جیسا کہ جاہل اور مشرک لوگ پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کو پیر دستگیر کہتے ہیں یعنی ڈوبتے ہوئے یا گرنے والے کا ہاتھ تھامنے والا۔ اور یہ وظیفہ بھی کرتے ہیں۔ یَا عَبْدَ الْقَادِرِ شَیْئا للّٰہِ ” اے عبدالقادر اللہ کے لیے کچھ دیجیے“ جاہل لوگ حضرت علی ہجویری (رح) کو داتا گنج بخش کہتے ہیں جس کا مطلب ہے خزانے بخشنے والا۔ غوث اعظم بڑا فریادیں سننے والا اس سے پہلے ارشاد فرمایا کہ ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے جس کی وضاحت آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ اب استثناء کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ایک امت یعنی جماعت ایسی بھی پیدا فرمائی ہے جو لوگوں کو حق کی رہنمائی کرتے ہیں اور عدل کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم ان کو اس طرح کھینچ کر جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں کہ انھیں اس کی خبر تک نہ ہے۔ ہم نے انھیں مہلت دے رکھی ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مہلت دینے کی تدبیر نہایت مضبوط ہے، کسی کو مہلت دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رب ذوالجلال کی گرفت سے بچ جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مائَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب للہ مائۃ اسم غیر واحد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اس کے صفات کمال کے حامل ہیں۔ 2۔ توحید اسماء و صفات عقیدہ توحید کا حصہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ مخلوق کو پکارنے والوں کو عذاب ہوگا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی تدابیر نہایت مضبوط ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی : 1۔ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن۔ اللہ کے لیے اچھے نام ہیں۔ (الاسراء :110) 2۔ اللہ کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں۔ اس کے اچھے نام ہیں۔ (طٰہٰ :8) 3۔ وہ خالق، باری، المصور ہے اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔ (الحشر :24) 4۔ وہ اول ہے، وہ آخر ہے، وہ ظاہر اور باطن ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (الحدید :3) 5۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ زندہ اور قائم ہے۔ (البقرۃ: 255۔ آل عمراٰن :2)