سورة البقرة - آیت 105

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اہل کتاب اور مشرکوں میں سے جو کافر ہیں ‘ نہیں چاہتے کہ تم (مسلمانوں) پر تمہارے اللہ سے کوئی بھلی بات (ف ٢) نازل ہو ، لیکن اللہ جسے چاہے ، اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے اور خدا بڑے فضل والا ہے ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کی ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کو ملنے والی بھلائی کو پسند نہیں کرتے اس کے لیے وہ ہر جرم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ نبی آخر الزمان {ﷺ}کی شان میں گستاخیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید مسلمانوں کو باربار باور کرواتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکوں کو اپنا خیر خواہ اور دوست نہ سمجھو کیونکہ ان کی سر توڑ کوشش اور دلی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو کوئی بھلائی حاصل نہ ہوسکے۔ اسی منفی سوچ کے پیش نظر وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ جہاں تک ہوسکے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اہل کتاب مذہب کے دعوے دار ہونے کے پیش نظر مسلمانوں کے ہمدرد اور ان کے قریب ہوتے لیکن ان کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ لوگ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے کفار اور مشرکوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھیں کہ اہل کتاب نے ہمیشہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان امریکہ کے زیادہ قریب رہا ہے۔ اور ہر آڑے وقت میں امریکہ کی حمایت کی لیکن پاکستان پر جب مشکل وقت آیا تو امریکہ نے ہمیشہ ہندوستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس سے ارباب سیاست کو قرآنی حقائق کا اندازہ کرنا چاہیے۔ لہٰذا امت مسلمہ کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ تمہیں ایسے لوگوں سے چوکس اور چوکنا رہنا چاہیے جو تمہیں ہر وقت نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ اس فرمان میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص فرمالیا تھا۔ اس لیے اب اہل کتاب کی سازشیں، کفار اور مشرکوں کی شرارتیں مسلمانوں کو چنداں نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ جس پر اللہ تعالیٰ فضل فرمانے کا فیصلہ فرما لیتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے فضل اور فیصلے کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ رحمت سے مراد بعض اہل علم نے نبوت لی ہے کہ اہل کتاب رسول اللہ {ﷺ}کا نبی ہونا پسند نہیں کرتے حالانکہ نبوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اختصاص ہے وہ جسے چاہے نبوت کے لیے منتخب فرمائے۔ اب سلسلہ نبوت حضرت محمد {ﷺ}پر قیامت تک ختم ہوچکا ہے۔ مسائل : 1۔ یہود و نصاریٰ اور مشرک نہیں چاہتے کہ مسلمانوں پر خیر نازل ہو۔ 2۔ اللہ تعالیٰ صاحب فضل وکرم ہے جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔