وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ہے جو حق کی طرف رہبری کرتے اور اسی پر انصاف کرتے ہیں ۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی بات کو واقعہ برائے واقعہ اور داستان گوئی کے لیے بیان نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ کے سوا کسی ایک نبی کا قصہ کسی ایک مقام پر مسلسل بیان نہیں کیا گیا بلکہ قصہ کا وہی حصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے ایک خاص نقطہ اور نصیحت بیان کرنا مقصود ہوتی ہے۔ پھر قرآن مجید کا کمال اور اس کی انصاف پسندی یہ ہے کہ اس نے کسی قوم کے جرائم بیان کرتے ہوئے اس قوم کو کلیتاً مجرم قوم قرار نہیں دیا بلکہ ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ قرار دے کر ان کے اچھے کردار کی تعریف کی ہے۔ اسی اصول اور اسلوب کے پیش نظر یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ان اچھے لوگوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو حالات کی سنگینی کے باوجود نہ صرف حق پر قائم رہے بلکہ حق کی تلقین اور ہمیشہ عدل کی بات کرتے رہے۔ جنھیں تھوڑے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایک امت قرار دیا ہے کیونکہ حق پر قائم رہنے والے لوگ خواہ کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں وہ اپنے صالح کردار اور توحید پر مبنی عقیدہ کی وجہ سے ایک امت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک امت قرار دیا ہے۔ (النمل، آیت :121) قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے جن پاکباز لوگوں کو امت کے درجے پر فائز کیا گیا ہے ان کی وضاحت کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ان سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے سچے متبعین اور ان کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے لوگ ہیں۔ جب نبی آخر الزماں (ﷺ) کی بعثت کا اعلان ہوا تو جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے ہیں۔ یہی لوگ حق کی رہنمائی کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ (عَن سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطّابِ (رض) قَالَا لِرَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَتَسْتَغْفِرُ لِزَیْدِ بْنِ عَمْرٍو ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنّہُ یُبْعَثُ أُمَّۃً وَّاحِدًا) [ سیرۃ ابن ہشام] ” حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور عمر بن خطاب (رض) دونوں نے رسول مکرم (ﷺ) سے دریافت کیا آپ زید بن عمر و کے لیے استغفار کرتے ہیں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں بلاشبہ وہ اکیلا ایک جماعت کی طرح ہے۔“