سورة الاعراف - آیت 27

يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اے بنی آدم (علیہ السلام) تمہیں شیطان نہ بہکاوے ، جیسے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا ان کے کپڑے ان پر سے کھینچتا تھا ، کہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھلائے ، شیطان اور اس کی قوم تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں کہ جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطانوں کو بےایمانوں کا دوست بنا دیا ہے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 اور ایسے دشمن سے تو بہت زیادہ محتاط اور چو کنا رہنا چاہیے جو ہم کو دیکھے مگر ہم اس کو نہ دیکھ پائیں اس آیت سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جنوں کو دیکھنا ممکن نہیں ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر کسی وقت ہمیں دیکھ رہے ہوں اور ہم انہیں نہ دیکھ رہے ہوں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا دکھائی دینا کسی وقت بھی ممکن نہیں ہے، یہ قضیۃ مطلقۃ لا دائمتۃ لہذا صحیح یہی ہے کہ جنوں کی رؤیت ممکن ہے احادیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے جنوں کو دیکھا ہے۔،( فتح القدیر) اور زکو ٰۃ رمضان کی نگرانی کے قصہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابور ہریر (رض) نے ایک جن کو پکڑ لیا اور صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا، آج رات میری نماز قطع کرنے کے لیے میرے پاس سرکش جن آگیا اگر میرے بھائی سلمان ( علیہ السلام) کی دعانہ ہوتی تو میں اسے پکڑ کر مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اروصبح کو مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے ،نیز یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے نصیبین کے جنوں کو دیکھا ہے اب رہا امام شافعی کایہ فرمانا کہ جو شخص جنات کی رؤیت کا دعوی ٰ کرے اس کی شہادت مردود ہے تو اس سے امام شافعی کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کی اصلی شکل پر دیکھنے کا دعو یٰ کرے (قرطبی، روح )