وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
اس آیت میں جس طرح ادیان باطلہ سے منع فرمایا گیا ہے اس طرح اسلام میں بھی تفرقہ پسندی سے روک دیا گیا ہے پس جو راہ کتاب وسنت کے سوا ہو جس پر تین مشھود لھا بالخیر گزرے ہیں وہ سب راستے ممنوع ٹھہرے خواہ تقلید مذاہب اربعہ ہو یہ اہل بدعت کے مشارب ہوں۔ پرانی اور ہر قسم کی بد عات گمرہ کن ہیں۔ مسلمان کو حکم ہے اللہ کابندہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بن کر رہے۔ خود ائمہ دین اور سارے مجتہدین سلف وخلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے بلکہ سب کے سب کتاب وسنت کی اتباع کریں یہی طریقہ اہل حدیث وجماعت نے اختیار کیا ہے اور اسی کی طرف دعوت دی ہے۔ ( ما خوذ از تر جمان النواب) ف 4 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور تقوی کی راہ ہے، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کون ہے جوان آیتوں پر میری بیعت کرتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قل تعالوا سے لعلکم تقتون تک ان تین آیتوں کی تلاوت کر کے فرمایا جس نے ان کو پورا کیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ اس کاجر ہے اور جس نے ان میں سے کسی چیز میں کمی کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں پکڑ لیا تو وہی اس کی سزا ہے اور جسے اس نے مہلت دی اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے چاہے اسے سزادے اور چاہے اسے معاف فرما دے ( ابن کثیر بحوالہ ترمذی وغیرہ ) ف 5 نیک بندے سے مراد حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو تورات دی اور ان کو اپنی نعمت سے نوازا، اس کلام سے مقصود مذکرہ وصیت کی تقریر و تحقیق ہے۔ (کذافی الروح )