وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اللہ وہ ہے جس نے ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے باغ اور کھجوریں اور کھیت پیدا کئے جن کے پھل طرح طرح کے ہیں اور زیتون اور انار ایک دوسرے کے مشابہ اور جدا جدا بھی (ف ١) ۔ اس کے پھل میں سے کھاؤ جب کہ پھل لگیں اور اس کا حق ادا کرو جس دن کھیتی کٹے اور بےجا نہ اڑاؤ کہ وہ بیجا اڑا دینے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔(ف ٢)
ف 3 مَّعۡرُوشَٰتٖجیسے ٹیٹوں ستونوں اور منڈیروں پر چڑھی ہوئی انگور وغیرہ کی بیلیں اور غَيۡرَ مَعۡرُوشَٰتٖوہ در خت اور پو دے جو اپنی جڑوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ مشرکین کی جہالت اور گمراہی ثابت کرنے کے لیے چارمسئلے بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں توحید کا اثبات ہے جو قرآن کے اصول اربعہ میں سے پہلی اصل یا پہلا اصول ہے اور قرآن نے ان اصول اربعہ پر مسلسل بحث کی ہے۔ یہ پانچ چیزیں جو یہاں مذکور ہیں ان کا ذکر پہلے بھی (آیت 99) میں آچکا ہے۔ اب یہاں دوسرے انداز سے ان کا اعادہ فرمایا ہے اور ان میں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی تر غیب دی ہے (کبیر ) ف 4 یعنی ان میں سے کچھ حصہ فقیروں، مسکینوں بیواؤں اور یتیموں کو بطور صدقہ دو، یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی، اس وقت رزعی پیداوا رکے صدقہ کایہ حکم عام تھا اور اس کی کوئی مقدار مقرر نہ تھی، مدینہ پہنچ کر 2 ھ میں زکوٰۃ (عشر) کی مقدار اور شرح مقرر ہوئی یعنی بارانی زمین کی پیدا وار میں دسواں حصہ اور جس زمین کو کنویں یامحنت سے پانی لاکر سیراب کیا جائے تو اس کی پیداوار میں سے بیسواں حصہ۔ تفصیلات حدیث وفقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسئلہ: عشر صرف اقوات یعنی اس پیدار پر ہے جو بطور ذخیرہ جمع کر کے مصنوعی تدبیر کے بغیر رکھی جاسکتی ہو۔ اس بنا پر یه مسٔله بالكل صحیح هے كه سبزیوں (خضروات)پر عشر نهیں ہے کیونکہ عشر کی فرضیت کے بعد عہد رسالت اور حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں بھی ان سے عشر نہیں لیا گیا پھر اگر ان سے عشر ضروری ہوتا توعہد صدیقی میں اس کی طرف ضرور توجہ دی جاتی جب کہ ایک عقال کے ادانہ کرنے پر حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے اعلان جہاد فرمادیا تھا۔ علامہ قرطبی، نے اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ( دیکھئے قرطبی، زیر آیت) ف 5 ’’اسراف‘‘ کے معنی کسی چیز میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، عام کھانے پینے اور مال کے خرچ کرنے میں اسراف ہوتا ہے اور صدقہ خیرات میں بھی یعنی نہ تو ناحق کوئی چیز وصول کرو اور نہ ناحق خرچ ہی کرو ۔بعض نے لکھا ہے کہ یہ خطاب ولاۃ( حکام) سے ہے یعنی حق واجب سے زیادہ وصول نہ کرو جیسا کہ حدیث میں ہے۔( الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا) کہ صدقہ وصول کرنے میں ظلم کرنے والا اسی طرح گنہگار ہے جیسا کہ زکواۃ نہ دینے والا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس نے ایک دن میں پانچ سو کھجور کے درخت سے پھل اتارا اور اسی روز سارے کا سارا خرچ کردیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال صدقہ وخیرات میں دے دینا منع ہے۔ (قرطبی)