وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
جب ہم نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا کہ نہ بندگی کرنا مگر اللہ کی اور والدین اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں سے نیک سلوک رکھنا ، لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوۃ دیتے رہنا ، پھر تم (اس اقرار سے) پھرگئے لیکن تھوڑے آدمی تم میں سے نہ پھرے تم تو منہ پھیرنے والے ہو ۔ (ف ١)
ف 1 آیات سابقہ میں بنی اسرائیل کو وہ تاریخ احسانات یاد لائے گئے ہیں جوان کے بزرگوں پر کئے گئے اور انہوں نے شکر گزاری کی بجائے کفر کیا جس کے نتیجہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی بار عتاب نازل ہوا اب یہاں ان کو وہ عہد یاد لایا جا رہا ہے جو اصل احکام (عبادات ومعامالات) دیتے وقت ان سے لیا گیا تھا اور بتایا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کی پابندی نہ کو او اعراض واہمال کو اپنا شعار بنا لیا اسی قسم کا حکم سورتہ نساء (آیت :26) میں امت مسلمہ کو بھی دیا گیا ہے۔ اب ن کثیر عبادت کی چار قسمیں ہیں (1) بدنی جیسے طواف۔ رکوع سجدہ وغیرہ (2) مالی جیسے صدقہ خیرات کرنا اور نذرانیاز ماننا،(3) لسانی جیسے کسی کے نام وظیفہ جپنا یا اٹھتے بیٹھے چلتے پھر تے کسی کا نام لینا۔ (4) قلبی جیسے کسی پر بھروسہ رکھنا کسی سے خوف کھانا یا امید رکھانا۔ یہ سب عبادتیں اللہ کے لیے ہیں ان میں جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنایا وہ شرک کا مرتکب ہوگیا۔ سلفیہ) ماں باپ کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آنے کو اللہ تعالیٰ علاؤ اس آیت کے متعدد دوسری آیات میں عبادت الہی کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے ثابتج ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں سب سے افضل عمل یہی ہے عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریا فت کیا سب سے افضل عمل کو نسا ہے ؟ فرمایا الصلوہ لوقھا کہ نمازوں کو اول وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا پھر کو نسا : فرمایا بر الولدین ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا ،(ابن کثیر اور قولو اللناس حسنا میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر شرعی لحاظ سے حسن ہونے کا اطلاق ہوسکتا ہو اور یہ لفظ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی شامل ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایال : کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگر تم کچھ اور نہ کرسکو تو کم سے کم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی ہی سے پیش آجاؤ (صحیح مسلم۔ ترمذی) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلے احسان بالفعل کا حکم دیا ہے اور پھر قولو اللناس حسنا میں احسان قولی کا حکم ہے اس کے بعد اقیموا الصلوتہ اوتو الز کوہ میں اس عبادت اور احسان کو متعین کردیا ہے اور اس سے وہ نماز اور زکوہ مراد ہیں جو ان کے مذہب میں تھیں۔ پس یہ آیت ہر قسم کی عبادت بدنی مالی۔ قولی اور قلبی پر مشتمل ہے اور عبادات ومعاملات کے اصول بحیثیت مجموعی اس آیت میں آجاتے ہیں۔