سورة البقرة - آیت 1

لم

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

الم ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

(2) سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں ان کو مقطعا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ الگ الگ کرکے پڑھے جاتے ہیں خلفاء اربعہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر اکا بر صحا بہ کا خیال ہے کہ یہ حروف راز خداوندی ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان حروف کی تفسیر میں کوئی بات ثابت نہیں ہے مگر بعض صحابہ مثلا عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں صرف ایک قول عبد الر حمن بن زید سے ثابت ہے کہ انہوں نے ان حروف کو اسمائے سورۃ قرار دیا ہے وکھوا لصحیح ( کشاف رازی۔ متآ خرین علماء نے ان حروف کو کو لطا ئف دقائق بیان کئے ہیں مگر یہ سب فنی کاوش الغازو تعمیہ کی حثیت رکھتی ہیں ایک احتمال کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اوائل سورۃ میں ان کے نزول سے تحدی مقصود ہو۔ اور عرب کے فصحا اور بلغا کو دعوت معارضہ دی گئی ہو کہ قرآن ان حروف تہجی سے مرکب ہے جن سے تم اپنا کلام ترکیب دیتے ہو اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے تو تم بھی اس اس جیسا کلام بنا لاؤ ورنہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن اس بارے میں تو قف اور سکوت بہتر ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ ہر اس شخص کے لیے جو نجات کا خواہاں اور سلف صالحین کی پیروی کا خواہشمند ہے اتان جان لینا کافی ہے کہ ان حروف کے اتار نے میں کوئی ایسی حکمت ہے جس تک ہماری رسارئی ممکن نہیں ہے پس اس سے زیادہ گہرائی میں جانے کی سعی کرنا لا حا صل ہے۔ (فتح القدیر )