وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض سے آزمایا ہے ‘ تاکہ وہ یوں کہیں کہ کیا ہمارے درمیان سے اللہ نے انہیں (ف ١) (غربا) پر فضل کیا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو نہیں جانتا ؟ (ف ٢) ۔
ف 9 یعنی سرداران قریش جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ ف 10 یعنی کیا بلال (رض)۔ صہیب (رض) خباب (رض) سالم (رض) عبد اللہ (رض) بن مسعود (رض) سعد (رض) بن ابی وقاص (رض) اور دوسے غریب اور بے کس مسلمان ہی اللہ تعالیٰ یو یہ ایسے نظر آئے ہیں کہ اس نے انہیں ہماری قوم میں سے چن لیا ہے۔ ف 11 یعنی دولتمندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ کیا یہ لا ئق ہیں اللہ کے فضل کے اور اللہ دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔ ( موضح) در اصل اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت ہے تو انہی لوگوں کی ہے جو اخلاص سے اللہ کاشکر بجا لاتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی غریب اور محتاج ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خالی دینوی حسب و نسب اور خوشحالی کی کوئی قدر نہیں ہے جیسے فرمایا ان اکر مکم عند اللہ اتقاکم ( حجرات) کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ باعزت وہ ہے جو سب زیادہ پر ہیز گار ہے