سورة المآئدہ - آیت 106

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! جب تم میں سے کسی کی موت حاضر ہو ، تو وصیت کے وقت تم میں سے دو معتبر شخص چاہئیں (ف ٢) ۔ یا تمہارے سوا غیر مذہب کے دو شخص ہوں ، اگر تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت آجائے ، اگر تمہیں ان گواہوں کی نسبت شک ہو تو بعد نماز ان دو گواہوں کو کھڑا کرو ، کہ وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں اور کہیں کہ ہم مال پر قسم فروخت نہیں کرتے اگرچہ کوئی ہمارا قرابتی کیوں نہ ہو ، اور ہم اللہ کی گواہی نہیں چھپاتے ورنہ ہم گنہ گاروں میں ہونگے ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یعنی دو دیندار اور راست باو و قابل اعتماد شخصوں کی۔ ف 3 اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کسی کافر کو اپنے معاملہ میں اسی وقت شاہد بنا سکتا ہے جب مسلمان گواہ بننے کے لیے میسر نہ ہوں بعض صحابہ اور تابعین کا یہی مسلک ہے اور امام ارازی فرماتے ہیں کہ او من غیر کم کی تفسیر غیرک مسلم سے کرنا سیاق آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ (کبیر، شوکانی ف 4 یاکسی بھی نماز کے بعد لیکن اکثر علما عصر کی نماز کے بعد ہی کے قائل ہیں کیونکہ اس وقت جھوٹی شہادت دینے والے پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے، (شوکانی) ف 5 خلاصہ یہ کہ مسلمان کو چاہیے کہ مرتے وقت اپنی وصیت پر دو معتبر مسلمانوں کو گواہ بنائے لیکن سفر کی حالت میں مسلمان گواہ نہ مل سکیں تو کافروں کی بھی گواہ بناسکتا ہے پھر اگر ان کافروں کی گواہی کے متعلق شبہ پیدا ہوجائے تو عصر کی نماز کے بعد ان سے اس گواہی پر حلف لیا جاسکتا ہے اس کے بعد بھی اگر کسی طور معلوم ہوجائے کہ انہوں نے جھوٹی قسم کھائی ہے یا خیانت کا ارتکاب کیا ہے تو میت کے وارثو میں سے دو آدمی جو سب سے زیادہ قریبی عزیز ہوں ان کے خلاف حلف اٹھا کر اپنا حق وصول کرسکتے ہیں (فتح القدیر)