أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کیلئے حلال کیا گیا ہے اور تم پر جنگل کا شکار حرام ہے ، جب تک تم احرام میں ہو ، اور خدا سے ڈرو جس کے پاس جاؤ گے۔ (ف ١) ۔
ف 10 یعنی جہاں تم پڑے ہوئے ہو وہاں بھی کھا سکتے ہو اور زاد راہ بھی بنا سکتے ہوالبحر سے مراد پانی ہے اور اس میں سمندر اور غیر سمندر سب برابر ہیں یہاں شکار سے وہ مچھلی مراد ہے جو شکار کی جائے اور طعام سے مراد وہ زندہ یا مردہ مچھلی ہے جسے سمندر کی موجیں کنارے پر پھینک دیں اکثر صحا بہ (رض) نے اسکی یہی تفسیر کی ہے۔ اس آیت سے جمہور علمانے استدلال کیا ہے کہ سمندر کا مردہ جانور حلال ہے (ابن کثیر) اور مَتَٰعٗا لَّكُمۡسے اشارہ فرمادیا ہے کہ یہ رخصت تمہارے فائدے کے لیے ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حج کے طفیل حلال ہوئی ہے۔ (کذافی الموضح )