كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور آپس میں برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے ، کیا برا کام تھا جو وہ کرتے تھے ۔
ف3یہ ان کی معصیت اور اعتدال کی تفسیر ہے (کبیر) یعنی وہ امر بالمعرف ونہی عن المنکر کا فریضہ بھلا بیٹے تھے اور ان کے نیک لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر کچھ لوگ برے کام کر رہے ہیں تو کرتے رہیں انکا وبال خود ان پر ہوگا ہم تو اپنی جگہ پر نیک ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا کہ’’ بنی اسرائیل میں پہلے یہ خرابی آئی کہ آج یک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو اسے برائی پر ٹوکتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا لیکن کل یہی شخص اس کے ساتھ کھانے پینے لگتا۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل آپس میں ٹکرادیئے اس کے بعد آنحضرت (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر صحابہ (رض) سے فرمایا: سن رکھو یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں تم لوگ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی اسی طرح لعنت فرمائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی (ابو داؤد، ترمذی) حدیث میں ہے کہ جب کوئ قوم امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ بیٹھتی ہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی (ابن کثیر)