قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
تو کہہ اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور اس قوم کے خیالات نہ مانو جو پہلے گمراہ اور بہتوں کو بہکا گئے اور آپ سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔ (ف ١)
ف 12 یہود ونصاریٰکی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مخاطب فرمایا ہے (کبیر) نصاریٰنے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے معاملہ میں غلو کیا ہے اور ایک بشر جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیا تھا (زخرف59،مؤمون50)اسے مقام الوہیت پر کھڑا کر دیا۔دوسری طرف یہود نے ان کی تکذیب کی ،ان سے انتہائ توہین آمیز سلوک کیا ،ان پر اور ان کی والدہ پر تہمت طرازی کی اور ان کے قرل کے در پے ہوئے بلکہ بقول نصاریٰیہود نے حضرت مسیح کو سولی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کرڈالا (کبیر، ابن کثیر) یہ حقیقت ہے کہ دین میں جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (یعنی راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آئی ہے اسی لیے آنحضرت (ﷺ) نے مسلمانوں کو باربار نصیحت فرمائی کہ میرے معاملہ میں حد سے نہ بڑھنا اور مجھے بشریت کے مقام سے اٹھاکر خدائی کے مرتبہ تک نہ پہنچا دینا ( ماخوذ از وحیدی) ف 1 پہلے فرمایا کہ گمراہ ہوئے پھر فرمایا کہ سیدھی راہ سے بہک گئے گویہ دو نوں بظاہر ایک ہی ہیں مگر علما نے لکھا ہے کہ اول سے مراد یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ضَلُّواْسے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی ہو اوردوسری سے عمل کی گمرہی مراد ہو (کبیر )