وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور خیال کیا کہ کچھ خرابی نہ ہوگی ، سو اندھے اور بہرے ہوگئے پھر خدا ان پر متوجہ ہوا اور معاف کردیا (تو) پھر ان میں بہت لوگ اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کے کام دیکھتا ہے ۔
ف 12 لفظ فتنتہ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں مطلب یہ کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں خواہ انبیا تک قتل کریں چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہتیے ہیں اس لیے ہم پر دنیا میں کسی قسم کی ادربار ونحوست یا غلبہ دشمن کوئی بلا نازل نہیں ہوگی (کبیر ) ف 13 مگر ان پر بلا نازل ہوئی چنانچہ جب وہ پہلی مرتبہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے زما نہ میں حق سے بہرے اور اندھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے کافر اور ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصی ٰ کو جلا ڈالا ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی غلام بنا کر بناکر بابل لے گیا ( دیکھئے بن بنی اسرائیل آیت 4۔8) ف 14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انہوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہا ف 15 یعنی پھر دوبارہ جیسی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور حضرت یحیی ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیا کو قتل کر ڈالا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا بلکہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوئے بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت یحیی ( علیہ السلام) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں کثیر منھم فرمانے سے اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقا اور ہوسکتا ہے کہ لتفسدن فی الارض مرتین ان دو دو روں کی طرف اشارہ ہو (کبیر) ف 16 اس سے تہدید مقصود ہے (کبیر )