قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
تو کہہ اے اہل کتاب ! تم کچھ (بھی) راہ پر نہیں ہو جب تک کہ تم توریت ، اور انجیل پر اور جو تمہارے رب سے تمہاری طرف نازل ہوا ، اس پر قائم نہ ہوجاؤ ، اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تیرے رب سے تیری طرف اترا ہے ‘ یہ تو ان میں سے بہتوں کے درمیان شرارت اور کفر ہی بڑھائے گا ۔ سو تو کافر قوم پر افسوس نہ کر (ف ٢)
ف 4 تورات اور انجیل کی اقامت کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے دلائل موجود ہیں ان کا اقرار کریں اور تورات وانجیل کے احکام وحدود پر عمل پیرا ہوں (کبیر) مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہ کرو گے تو نہ تمہاری کوئی حیثیت اور نہ تمہاری کوئی دینداری ّابن کثیر) ف 5 تشریح کے لے حاشیہ آیت 64۔ ف 6 اس لیے کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے اپنے آپ کوہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہینگے (کبیر) ف 7 اوپر کی آیت میں بتایا کہ ال کتاب جب تک ایمان لاکر عمل صالح کریں ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اس آیت میں بتایا کہ سب کا یہی حکم ہے۔، بظاہر تو الصا ئبین منصوب آنا چاہیے تھا مگر سیبو بہ اور خلیل نے لکھا ہے کہ یہ مرفوع بالا بتداعلی نیتہ التا خیر ہے یعنی اصل میں ولاھم یحزنون کے بعد ہے اسی الصر بئون کذلک اور اس کے مو خر لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دواصل یہ سب فرقوں سے زیادہ گمراہ فرقہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان فرقوں میں سے جو بھی ایمان لاکر عمل صالح کریگا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا حتی کہ اگر صابی بھی ایمان لے آئیں تو ان کے بھی یہ رعایت مل سکتی ہے۔ (کبیر) الصابئین کی تشریح کے لے دیکھئے سورت بقرہ آیت 62 اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ (ابن کثیر )