سورة المآئدہ - آیت 64

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بندھ گیا ہے انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان کے اس کہنے کے سبب ان پر لعنت ہے بلکہ خدا کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (ف ٣) جس طرح وہ چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور البتہ وہ جو تیری طرف رب سے نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثروں کی شرارت اور کفر زیادہ کرے گا اور ہم نے ان میں قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ہی ڈال رکھا ہے جب کبھی بھی وہ لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں خدا اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کے لئے دوڑتے ہیں اور خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتے ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 جب ان پر کوئی سخت وقت آتا اور تنگدستی میں ہوتے ہیں تو اس قسم کے کفر بات بکتے جیسا کہ آج کل بعض جاہل قسم کے مسلمان اس قسم کے کلمات کہہ دیتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ایک یہودی نے اللہ تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کی اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی۔ (ابن جریر) ف 3 یعنی ان کے ہاتھ تنگ ہوں اور ہو پھٹکارے جائیں، ان کے حق میں بددعا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی وہ انتہائی سخی اور فیاض ہے زمین و آسمان کے تمام خرانے اس کے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اور اسے دن رات کا خرچ کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لے یہ ہاتھ ثابت ہیں قدرت وغیرہ کے معنی کر کے اس کی تاویل کرنا سلف کے خلاف ہے اہل حدیث اس قسم کی آی تو اور حدیثوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ظاہر معنی پر ایمان لاتے ہیں اور کیفت اللہ تعالیٰ ٗ کے سپرد کرتے ہیں اور اس کی کسی بھی مخلوق کی مشابہت سے پاک جانتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے ویسے ہی اس کی صفات بھی بے مثل ہیں (م۔ وحیدی) ف 5 در اصل یہ لوگ دلائل کے وضح ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار محض حسد و بغض اور حب جاہ ومال کی وجہ سے کررہے تھے یہی وجہ تھی کہ قرآن کے تدریجی نزول کے ساتھ ان کے کفر وانکار میں بھی اضافہ اور غلو ہورہا تھا قرآن نے ان کے دلوں کی اسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے کہ نزول قرآن سے وہ اپنے کفر اور شرارت میں مزید ترقی کرتے جائیں گے ،(ماخوذ از کبیر) ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کی ان پر دوسری پھٹکار یہ ہے کہ ان میں باہم فرقہ بند ی اور عداوت پائی جاتی ہے اس لیے مسلمانوں کے خلاف جتنے منصوبے بناتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناکام بنا یے جاتے ہیں چنانچہ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف جتنی شرارتیں کیں اور ان سے جتنی جنگیں لڑیں ان سب کر تاریخ اس حقیقت کی کھلی شہادت ہے۔