سورة المآئدہ - آیت 42

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

جھوٹ کہنے کو بڑے جاسوس ، بڑے حرام خور ہیں سو اگر تیرے پاس آئیں تو ان میں فیصلہ دے یا ان سے منہ پھیر لے ، اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے گا تو وہ ہرگز تیرا کچھ نقصان نہیں کرسکتے اور جو تو فیصلہ کرے تو فیصلہ کر انصاف سے بےشک اللہ منصفوں کو دوست رکھتا ہے۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 سحت کے لفظی معنی مٹانے اور ہلاک کرنے کے ہیں گویا مال حرام وہ چیز ہے جو انسان کی تمام نیکیوں کو اکارت کر کے رکھ دیتی ہے اور ہر اس خمیس مال پر سحت کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے لینے میں عا رہو اور خفیہ طور پر لیا جائے ۔ اس میں رشوت بھی شامل ہے اور احادیث میں زانیہ کی اجرت کتے ،شراب اور مردار بیجنے سحتکہا گیا ہے۔ سود چوری کا مال اور جوئے سے کمایا ہو امال بھی سحت میں داخل ہے ( کبیر، قرطبی) ف 3 جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی یہودیوں کی ٖحیثیت محض ایک معاہد قوم کی تھی اور وہ زمی یعنی اسلامی حکومت کی رعایا نہ تھے اس لیے نبی (ﷺ) کی عدالت کو اختیا ردیا گیا کہ چاہیں تو انکے مقدمات کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اور یہی اختیار اسلامی حکومت کو کسی غیرمسلم معاہد قوم کے درمیان فیصلہ کرنے کے بارے میں ہے۔ رہے ذمی لوگ سوا گر وہ اپنے مقدمات اسلامی عدلت میں لائیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگا۔ (المنار ) یہی تفصیل امام شافعی (رح) سے منقول ہے پس اس تخییر کا تعلق معاہد قوم سے ہے۔ (کبیر) مگر دوسرے علما کا خیال ہے کہ یہ تخییر منسوخ ہے جن میں حضرت عمر (رح) بن عبدالعزیز اورا مام نخعی (رح) بھی شامل ہیں ۔نحاس نے بھی ناسخ منسوخ میں یہی لکھا ہے اور حضرت عکرمہ (رض) سے بھی یہی مروی ہے کہ آیتİ فَٱحۡكُم بَيۡنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُĬ (مائدہ آیت 48) سے یہ آیت منسوخ ہے امام شافعی کا اصح قول بھی یہی ہے امام زہری (رح) فرماتے ہیں شروع سے یہ طریقہ چلاآیا ہے کہ باہمی حقوق اور احکام وراثت میں اہل کتاب کا فیصلہ ان کے دین کے مطابق کیا جائے ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کے خواہشمند ہوں تو پھراسی کے مطابق کردیا جائے گا اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض جزئیات میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے تاہم ان کی اکثر یت نسخ کی قائل ہے (قرطبی)