فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر جس نے اپنے قصور کئے پیچھے توبہ کی اور سنور گیا تو اللہ اس کو معاف کرتا ہے بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
ف 4 یہاں ظلم سے مراد سرقہ( چوری) ہے یعنی جس نے چوری کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلی اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف فرامائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ توبہ کرلینے سے چوری کی حد اس سے ساقط ہوجائے گی۔ نبی (ﷺ) کی خدمت میں چورتوبہ کرتے ہوئے آتے لیکن آپ (ﷺ) ان پر حد جاری فرماتے دار قطنی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) ایک چورکا ہاتھ کٹوایا اور پھر اس سے فرمایا تب الی اللہ یعنی توبہ کرو اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف فرمائے ( از فتح القدیر) یہ تو باکل صحیح ہے کہ حد دو کفارہ هیں محض ان کی حیثیت زواجر کی نہیں ہے مگر ساتھ ہی توبہ کی بھی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از قرطبی)