سورة البقرة - آیت 62

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بےشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ ہوئے اور صابئین (ف ١) (بے دین یا ستارہ پرست) ہوئے جو کوئی ان میں سے اللہ پر اور آخری دین پر ایمان لائے اور نیک کام کرے ان کی مزدوری ان کے رب کے پاس ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 :اس آیت میں یہود کی عصبیت گروہی کی تردید مقصود ہے، وہ سمجھتے تھے کہ بس اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور نجات ہمارے لیے مخصوص ہے۔ یہا ‏ ‏ں پر قرآن نے نجات اخروی اور قرب الهی كے لیے ایك اصول مقرر كردیا كه نجات کا مدار ایمان باللہ عمل صالح اور ایمان بالآ خرة پر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی معتبر ہوسکتا ہے جو انبیاء کے ذریعہ ہو۔ اور عمل صالح کی تعیین بھی انبیاء ہی کرسکتے ہیں اور آخرت پر ایمان کے لیے بھی انبیاء کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن کا منشا یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے انبیاء کی ہدا یت کے تحت جو بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور اس وقت کے نبی کی شریعت کے مطابق اس نے عمل صالح بھی کیے ہوں گے اسے آخرت میں فلاح حاصل ہوجائے گی اس میں مسلمان یہود اور صابی سب برابر ہیں پھر آنحضرت (ﷺ) کی بعثت کے بعد ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ آنحضرت (ﷺ) پر ایمان لانا بھی شرط نجات ہے ۔کیونکہ آپ کی آمد سے شرائع سابقہ منسوخ ہوگئی ہیں الصابی یہ صَبَا یَصْبُو سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی طرف دل سے مائل ہوجا نے کے ہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ صابی ہر وہ شخص ہے جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار کرلے اس بنا پر کفار عرب آنحضرت (ﷺ) کو صابی کہہ کر پکار تے کیونکہ آپ (ﷺ) نے آبائی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین کا اعلان کیا تھا۔ یہ لفظ حنیف کے با لمقابل ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل سب لوگ صابی دین کے حامل چلے آرہے تھے۔ یہ قوم حضرت شیث کے صحائف کے متبع تھی مگر تدریجا ان میں شرک سرایت کر گیا اور کواکب سبع کی پو جا کرنے لگے یہ اپنے عقیدہ کے مطابق جملہ حوادث کو کو اکب کی طرف منسوب کرتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعثت کے وقت کلدانی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور بابل شہر ان کا مرکز تھا حضرت ابراہیم نے ہر قسم کے کو اکب اور بت پرستی سے برا ءت کا اظہار کر کے ان کے بالمقابل حنیفیت کی بنیاد رکھی۔ پھر تدریجا یہ لوگ نصاری میں شامل ہوگئے یہ لوگ اپنے مذہب کا نہا یت درجہ اخفا کرتے ہیں۔ شیعہ اسما عیلیہ نے کتمان مذہب انہی سے اخذ کیا ہے۔ اور ان کی دعوت کا منتهیٰ بھی صائبین ہیں۔ ان کے اہل کتاب ہونے میں صحابہ وتابعین کے مختلف آثار ہیں۔( تفصیل کے لیے دیکھئے جصاص، الفہر ست لا بن ندیم، الملل والنحل )