صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان کی راہ جن پر تونے اپنا فضل کیا نہ ان کی راہ جن پر غصہ ہوا اور نہ بھٹکنے والوں کی : ف ٦۔
(10) بہکئے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ازراہ جہالت صحیح راستہ سے بھٹک گئے ہوں اور جن پر غصہ کیا گیا، سے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے جا بوجھ کر علیحح راستہ اختیار نہ کیا ایک مرفوع حدیث میں نصاری کو ضالین اور یہود کو مغضوب علیہم قرار دیا گیا ہے متعدد آیات میں بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے (ابن کثیر) اور یہی تفسیر صحا بہ اور علماء تفسیر سے منقول ہے (فتح البیان) مسئلہ تفسیر درمنثور میں ہے کہ جبر یل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فاتحہ الکتاب پڑھائی تو آخر میں کہا کہ آمین کہیے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آمین کہی۔ فائدہ آمین کے معنی ہیں ہماری دعا قبول فرما، سورت فاتحہ میں ولا الضالین کے نون کے بعد آمین کہنا مستحب ہے جہری نمازوں میں امام اور مقتدی دونوں کا بآواز بلند آمین کہنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو اس لیے کہ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ایسے ہی حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولا لضا لین کے بعد آواز سے آمین کہتے تھے (ترمذی) مسئلہ سنت طریق یہ ہے ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر قرات کرے ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آیت کو الگ الگ پڑا ھا کرتے تھے مثلا الحمد اللہ رب العلمین پر ٹھہر جاتے پھر الر حمن الرحیم پڑھتے اور ٹھہر جاتے (ترمذی) یہ سورت اللہ تعالیٰ نے بندوں کو زبان سے فرمائی ہے ( مو ضح)