سورة النسآء - آیت 176

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

وہ تجھ سے فتوی مانگتے ہیں ، تو کہہ اللہ تمہیں کلالہ (اوت نپوت) کے بارے میں فتوی دیتا ہے کہ اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کے اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کو آدھا پہنچے گا جو چھوڑ مرا اور یہ بھائی بھی اس بہن کا وارث ہے اگر اس کے اولاد نہ ہو ، پھر اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو اس کے ترکہ سے ان دونوں بہنوں کو دو تہائی ہیں ، اور اگر اس کے وارث کئی بہن بھائی ہوں تو مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے ، اللہ تمہارے لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم نہ بہکو اور اللہ ہر شے سے واقف ہے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 سورت کی ابتدا احکام اموال سے ہوئی تھی اب آخر میں انہی احکام کے ساتھ سورت کو ختم کیا جارہا ہے ۔درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے (رازی) ’’کلالہ‘‘ پر بحث آیت 11 میں گزر چکی ہے۔، بخاری ومسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوا اور بیہوش تھا َ ۔نبی (ﷺ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپ (ﷺ) نے وضو فرمایا اور وضو سے بچے ہوئے پانی کے میرے منہ پر چھینٹے دیئے۔ جس سے مجھے ہوش آگیا میں نے عرض کی میں کلالہ ہوں میری میراث کیسے تقسیم ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 6 بعض علمانے اس سے استدلال کیا ہے کہ جن کی اولاد نہ ہو خواہ اس کا باپ زندہ ہی ہو اسے کلالہ کہا جائے گا مگر جمہور علمأ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے من لا ولد لہ ولا والد کہ جس کی نہ اولاد ہو اور نہ باپ اس لیے تشریح میں ’’نہ باپ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔، مزید دیکھئے آیت 11 (ابن کثیر) ف 7 یہا ں بہن سے عینی یا علاتی بہن( صرف باپ کی طرف سے) مراد ہے کیونکہ اخیافی بہن ( جو صرف ماں کی طرف سے ہو) کا حکم پہلے گزرچکا ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 ’’ولد‘‘ کا لفظ بیٹا بیٹی پر بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ بیٹی ہونے کی صورت میں بہن محرم رہیگی۔ حضرت ابن عباس (رض) امام داود ظاہری اور علما کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے لیکن اکثر صحابہ تابعین اور بعد کے اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن بحیثیت عصبہ اپنا حصہ لے گی جیساکہ آنحضرت (ﷺ) کے زمانہ میں حضرت معاذ (رض) نے بیٹی کو نصف دیا اور باقی بہن کو بطور عصبہ یا۔ اور دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے خود بیٹی کو نصف پوتی کو سد سدیا اور باقی ماندہ بہن کودیا۔پس یہاں ولد سے مراد صرف لڑکے ہیں (شوکانی ) ف 1 اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے۔ (شوکانی )