سورة النسآء - آیت 135

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! انصاف پر قائم رہو ۔ خدا کے لئے گواہی دو ‘ اگرچہ اپنی جان پر ہو یا والدین وقرابتیوں پر ۔ اگر وہ شخص غنی ہو یا فقیر ۔ اللہ دونوں پر تم سے زیادہ مہربان ہے سو تم اپنی خواہش کے تابع نہ ہو کہ انصاف سے عدل کرو اور اگر تم زبان ملوگے یا بجا جاؤ گے تو خدا تمہارے کاموں سے خبردار ہے (ف ١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 یعنی سچی شہادت دوچاہے وہ تمہارے خلاف ہی پڑے اور اس میں پڑے اور اس میں تمہارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی شہادت ماں باپ کے خلاف قبول ہوگی اور یہ ان کے ساتھ بر یعنی احسان کے منافی نہیں ہے۔ والدیں اوبھائی کی شہادت بھی سلف کے نزدیک مقبول ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہے جب وہ عدل ہوں اور ان پر تہمت نہ ہو۔ اسی تہمت کے پیش نظر بعض ائمہ نے میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں میں شہادت کو جائز رکھا ہے اور بعض نے ود کیا ہے۔ ( قرطبی) یعنی جس کے خلاف تمہاری گواہی پڑرہی ہے وہ دولتمند ہے تب اور غیر یب سے تب کسی حال میں اللہ کی شریعت سے زہادہ تمہاری طرف داری کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ لہذا نہ تم دولتمند سے ڈر کر اس کی طرفداری کرو اور نہ غریب پر ترس کھا کر اس کی بے جارعایت کر بلکہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچی گوایہ دو۔ سدی کہتے ہیں کہ دو آدمی نبی ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے جن میں سے ایک دولتمند تھا اور دوسرا غریب۔ آپ ﷺ کا دلی رحجان غریب کی طرف تھا۔ کیونکہ آپﷺ کا خیال تھا کہ یہ بیچارہ امیر آدمی پر کیسے زیادتی کرسکتا ہے۔ اس پر کہ آیت نازل ہوئی (قرطبی۔ ابن کثیر) یعنی اگر اس طرح بناکر پیش کرو گے کہ جس کے خلاف گواہی پڑنی چاہیے وہ بچ جائے یا سرے سے گواہی ہی نہ دو گے تو جیسا کروگے اللہ کے ہاں اس کی سزا پاو گے (قرطبی۔ شوکانی)