وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے اس کے لڑنے یا منہ پھیر لینے سے ڈرے تو ان دونوں میاں بیوی پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے اور دلوں میں حرص رکھی گئی ہے ۔ اور اگر تم نیکو کاری اور پرہیزگاری کرو تو خدا تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔ (ف ٢)
شرارتے یہ ہے کہ اس سے بدسلوکی کرے اس کو حقیر سمجھے اس کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑدے اسے نان ونفقہ نہ دے مانے پیٹنے کے لیے بہانے تراشے وغیرہ ف 5 مطلب یہ ہے کہ آپس میں مصالحت کرلیں اور شرارت یابے پروای کیفیت کو ختم کردیں اس سلسسلہئہ میں مصالحت کی جو صورت میں اختیار کرلیں وہ جائز ہے مثلا یہ کہ عورت اپنی باری چھوڑدے مہر کم کردے یا تھوڑے سے نان ونفقہ پر راضی ہوجائے حضرت عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سودہ (رض) ضعیف ہوگئیں اور انہیں ی اندیشہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ ان کو طلاق نہ دے دیں تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو ہبہ کردی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابو دود۔ ترمذی) بعض نے اس شان نزول میں رافع (رض) بن خدیج اور ان کی بیوی محمد بن مسلمہ لڑکی کا قصہ بھی بیان کیا ہے کہ رافع نے ایک جوان لڑکی سے نکاح کرلیا تھا کچھ عرصہ لڑائی جھگڑے کے بعد ان کی بیوی نے اس جوان لڑکی کو اپنے حقوق بخش کر رافع سے صلح کرلی کہ میں تمہاری بیوی بن کر رہنا پسند کرتی ہوں مگر پہلی شان نزول صحیح ہے۔ ( ابن کثیر۔ لباب النقول )