سورة النسآء - آیت 102

وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان ہو اور ان کے لئے نماز قائم کرے تو چاہئے کہ ایک جماعت مسلمانوں کی ہتھیار بند ہو کر تیرے پاس کھڑی ہو پھر جب وہ سجدہ کرچکیں تو تمہاری پشت پر (حفاظت کے لئے) جائیں اور دوسری جماعت آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی ، اب وہ تیرے ساتھ نماز پڑھیں اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار اپنے ساتھی رکھیں کافروں کی آرزو ہے کہ کاش تم اپنے ہتھیاروں اور اسباب سے غافل ہوجاؤ اور وہ تم پر یکبارگی دھاوا کردیں ، اور اگر تم بارش کی تکلیف یا بیماری کے سبب اپنے ہتھیار اتار رکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہے ، البتہ اپنا بچاؤ رکھو ۔ اللہ نے کافروں کے لئے رسوائی کا عذاب تیار کر رکھا ہے (ف ١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 کافروں کے ستانے کا ڈر اس وقت تھا جب یہ حکم آیا اس تقریب سے ہر وقت کے لیے معافی ملی۔ (موضح) یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس میں نماز میں قصر کی اجازت کیساتھ تمہیں کافروں کے ستانے کا ڈر ہو کو الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم سے یہ آیت ساکت ہے اسے نبی صلعم نے اپنے وقل وعمل سے واضح فرمایا ہے حضرت عمر (رض) سے ایک شخص نے سوال کیا کیا وجہ ہے کہ لوگ سفر میں قصر کر رہے حالانکہ قرآن میں خوف کے ساتھ مقید ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا خود مجھے بھی اس تعجب ہو اتھا اور میں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہذا تم اس کا صدقہ قبول کرو ( بخاری مسلم) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں نبیﷺمدینہ سے مکہ سے تشریف لے گئے اور اس وقت رب العٰلمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، (ترمذی۔ نسائی) ف 6 دوسر ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے جب وہ سجدہ کرلیں یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ایک رکعت پوری کرلیں تو پیچھے چائیں فتح القدیر) ف 7 یعنی آپ دوسری رکعت میں آپ کے ساتھ شامل ہوں اور ایک رکعت نماز پڑھیں۔ فوائد صفحہ ہذا ف 1 یہ صلوٰۃ خوف کی صرف ایک صورت کا ذکر ہے جبکہ دشمن موجود ہیں اور اس کے حملہ کا خطرہ ہو مگر عملا جنگ نہ ہو رہی جنگ نہ ہو رہی ہو۔ ابن العربی لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے چودہ مرتبہ صلوٰۃ خوف پڑھی ہے، امام احمد بن جنبل (رح) فرماتے ہیں۔ پس صلوٰۃ خوف میں تمام احایث صحیح اور ثابت ہیں۔ لہذا جس صورت میں نماز ادا کرلی جائے جائز ہے حافظ ابن لقیم (رح) زادالمعاد میں فرماتے ہیں سب احادیث کا مر جع چھ ساتھ صورتوں کی طرف ہے ت جن میں ہر صورت پر حسب موقع عمل کیا جاسکتا ہے۔ ( زادامعاد )