سورة النسآء - آیت 97

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

جن لوگوں کی روح فرشتے ایسی حالت میں قبض کرتے ہیں کہ اپنی جانوں پر ظلم کررہے ہوتے ہیں ان سے فرشتے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین (مکہ) میں عاجز پڑے تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم بھی اس میں ہجرت کرتے سو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے ۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4 ان لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ معظمہ اور دوسرے مقامات پر اسلام لا چکے تھے لیکن مجبوری کے بغیر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کر رہے تھے اور دارالا سلام کی زندگی چھوڑ کر دارالکفر میں رہنے پر قانع تھے۔ روایات میں ہے کہ اہل مکہ کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی اور ان لوگوں نے آنحضرت(ﷺ) کے سامنے اظہار ایمان بھی کیا مگر جب آنحضرت(ﷺ) نے ہجرت کی تو انہوں نے مکہ میں اپنی قوم کے پاس رہنا پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) ف 5 یعنی فرشتے تقریع اور توبیخ کے انداز میں ان سے پو چھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر یا دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلاعذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرے ہیں۔ (قرطبی)