سورة الجن - آیت 16

وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور یہ (وحی کی گئی ہے) کہ اگر لوگ طریقہ پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت پانی پلاتے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 یعنی خوب پانی برساتے جس سے بکثرت پھل اور غلے پیدا ہوتے اور وہ خوشحال ہوتے۔ ” آزمانے“ سے مراد یہ ہے کہ اس میں بھی ان کا امتحان ہو که آیا خوشحالی پا کر شکر بجا لاتے ہیں یا کفر و ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ آیت کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب ان پر سات سال کا قحط پڑا۔ بعض مفسرین نے طَرِيقَةِسے مراد کفر وضلالت کا راستہ لیاہے یعنی اگر یہ لوگ کفر و ضلالت کے راستہ پر ہی جمع رہتے تو ہم بطور استدراج انہیں خوب فارغ البالی اور خوشحالی دیتے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : İفَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ ‌فَتَحْنَا ‌عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَĬپھر جب وہ اس نصیحت کو فراموش کر بیٹھے جو انہیں کی گی تھی تو ہم نے ان پر ہر قسم کی خوشحالی کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ بخششوں میں جو انہیں دی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور ان کا حال یہ ہوگیا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔“ (انعام 44) ’’آزمانے“ کے لفظ کو دیکھا جائے تو اسی دوسرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر)