أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
کیا تونے ان کی طرف نہ دیکھا جنہیں کتاب میں سے حصہ ملا ہے کہ وہ بتوں اور شیطان پر ایمان لائے ہیں اور وہ کفار (قریش) کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی نسبت زیادہ راہ پائے ہوئے ہیں ۔
ف 5’’ الْجِبْتِ‘‘ بت کو کہتے ہیں اور جادوگر کاہن ٹونے ٹوٹکے اور اس قسم کی سب چیزیں الْجِبْتِمیں داخل ہیں۔ حدیث میں ہے(الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ) شگون لینا پرندوں کو اڑاکر اور زمین پر لکیریں کھینچ کرفال گری کرنا ’’جبت‘‘ میں شامل ہیں اور الطَّاغُوتِسے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص معاصی کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ان کو طاغوت کہا جاتا تھا (کبیر) ف 6 یہودیوں کی آنحضرت(ﷺ) سے مخالفت ہوئی تو انہوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارا دین مسلمانوں سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاست دینی ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔ تفسیر معالم میں ہے کہ یہ یہود کعب بن اشرف تھے جو غزوہ احد کے بعد مکہ مکرمہ گئے اور مشرکین کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان کے بتوں کو بھی سجدہ کرگزرے۔