وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
جو کچھ والدین اور قرابتی چھوڑیں ‘ اس میں ہر کسی کے وارث ہم نے مقرر کردیئے ہیں اور جن سے تم نے اقرار باندھا ہے ان کا حصہ انہیں دو ۔ بےشک ہر شے خدا کے روبرو ہے۔ (ف ١)
ف 2 جاہلیت میں دوشخص آپس میں’’ عقد مولاۃ‘‘ باندھ لیتے جس کی روسے ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے۔ ابتدا ٔہجرت میں آنحضرت (ﷺ) نے بھی مہاجرین (رض) اور انصار (رض) کے درمیان مواخاۃ کارشتہ قائم کیا تھا آیت میںİ وَٱلَّذِينَ عَقَدَتۡ۔۔الخĬسے اسی عہد کی طرف اشارہ ہے۔ اس عہد کی روسے وراثت کا حکم کے بعد میں سورت انفال کی آیتİ وَأُولُو الأرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِĬ (٧٥) سے منسوخ ہوگیا۔ آنحضرت (ﷺ) نے بھی اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیدیا ہے اب آئندہ حلف سے وارث نہیں ہو سکتے۔ آیت میں مَوَٰلِيَسے مراد عصبہ ہیں اور عصبہ کی وراثت الاَ قْرَبُ فَالاَ قْرَبْ کا اصول مقرر ہے یعنی اول سب سے زیادہ قریبی پھر دوسرا۔اور ایک حدیث میں بھی(فَلأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ)کے الفاظ ہیں یعنی اصحاب فروض سے جو کچھ بچ جائے گا وہ عصبہ میں اس شخص کو ملیگا جو میت کے کردوں میں سب سے زیادہ قریب ہوگا۔ اور اس پر علما کا اجماع بھی ہوچکا ہے لہذا صلبی لڑکے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں ہوسکتا ( دیکھئے فتح الباری ج 2 ص 294، انصاری دہلی،المحلیٰ ج 9 ص 271، احکام جصاص ج 2 ص 224)