وَإِن فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ
اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں میں جاملے اور تمہارا خرچ مہر وہ کافر نہ دیں تو جب تم کافروں کو گرا (ف 1) مارو (یعنی کافروں کے ہاتھ سے نکل کر ان کی کوئی عورت تم میں آملے) تو جن کی عورتیں جاتی ہیں ان کو اتنا مال دیدو جتنا انہوں نے خرچ کیا تھا اور اللہ سے ڈرو جس پر ایمان رکھتے ہو۔
ف 8 یعنی اگر کافر ان عورتوں کا مہر مسلمانوں کو واپس نہ کریں جو کافر ہو کر یا کافر رہ کر دارالاسلام سے کفار کے ہاں چلی جائیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ کافروں کا جو مال لوٹیں اس میں سے ان مسلمان شوہروں کا خرچ ادا کریں جن کی بیویاں دار الکفربھاگ جائیں یا دارالکفر سے جو عورتیں مسلمان ہو کر دارالاسلام آجائیں ان کے مہر کافروں کو واپس کرنے کی بجائے ان مسلمان شوہروں کو ادا کریں جن کی بیویاں دارالکفر بھاگ جائیں …… کافروں کو سزا دینے کے مفہوم میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں (یعنی لڑائی میں مال غنیمت حاصل کرنا یا مقابلہ میں ان کی عورتوں کا مہر ادا کرنا)۔ مختلف مفسرین نے یہ دونوں معنی مراد لئے ہیں۔ چنانچہ حافظ بن کثیر لکھتے ہیں اس یعنی عَاقَبْتُمْکے مفہوم میں وسعت ہے اگر کفار کا مہر ادا کرنا باقی ہو تو مسلمانوں کو وہ دے دیا جائے ورنہ مال غنیمت سے اس کے نقصان کا جبر کردیا جائے۔ ابن جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ وللہ الحمد والمنۃ ف 9 یعنی ایمان کے لئے تقویٰ شرط ہے یعنی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا احساس اس اندرونی شعور کا نام ہی دراصل تقویٰ ہے اور قرآن و حدیث میں اسی شعور کو پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔