سورة الممتحنة - آیت 10

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! جب تمہارے پاس ایماندار عورتیں (ف 1) ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو ۔ خدا ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے ۔ پھر اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں ۔ تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ لوٹاؤ نہ وہ کافروں کو حلال ہیں اور نہ کافر انہیں حلال ہیں اور جو ان کافروں نے خرچ کیا ہے ان کو دیدو اور تم پر گناہ نہیں کہ ان عورتوں سے نکاح کرو ۔ جبکہ تم ان کو ان کے مہر حوالے کردو اور تم کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو اور جو تم نے خرچ کیا ہے (ان سے) مانگ لو اور چاہیے کہ وہ کافر بھی اپنا خرچ جو کیا ہے مانگ لیں یہ اللہ کا حکم ہے وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یعنی انہیں آزما لو کہ وہ حقیقت میں مسلمان ہیں بھی کہ نہیں؟ مسور بن محزمہ مروان بن حکم سے راوی ہے کہ جب حدیبیہ کے روز آنحضرت کا قریش سے معاہدہ ہوا تو کچھ مسلمان عورتیں آپ کے پاس چلی آئیں انہی کے بارے میں آیت نازل ہوئی (شوکانی) ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہے کہ وہ ایماندار ہیں یا نہیں لیکن تمہیں چونکہ حقیقت حال نہیں ہے اس لئے ان عورتوں کو آزمائے بغیر اپنے ہاں پناہ نہ دو شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” طاہر میں ان کا جانچنا یہ کہ اگلی آیت میں جو حکم ہیں یہ قبول کریں۔“ ف 3 اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کا نکاح کافر ( مرد سے نہیں ہوسکتا اور کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے تو اس سے کے شوہر سے جا کردیا اور اگر شوہر بھی مسلمان ہوجائے تو نکاح برقرار یہ کہ اگلی آیت میں جو حکم ہیں۔ ف 4 یعنی ان کی عدت گزر جانے کے بعد جیسا آلہ و جوب عدت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی اگر شوہر مسلمان ہوجائے اور بیوی شرک پر قائم تو ایسی عورت کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اس نے روجیت میں رکھنا جائز نہیں ہے البتہ اگر وہ کتابیہ (یہودی یا عیسائی) ہو تو اسے چھوڑنا ضروری نہیں ہے۔ محمد بن اسحاق نے امام زہری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضرت عمر نے اپنی دونوں کافروں کو طلاق دے دی۔ اسی طرح حضرت طلحہ نے بھی اپنی ایک بیوی کو طلاق دی۔ (ابن کثیر) ف 6 یعنی اگر وہ ان عورتوں کو اپنے پاس رکھنا چاہیں۔ ف 7 یعنی جب وہ عورتیں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئیں اور کافروں کو ان کی عورتوں کا مہر واپس کردینے کا حکم بسبب عہد کے تھا اور نہ یہ مراد جب نہیں۔ (جامع البیان) شاہ صاحب بھی لکھتے ہیں۔ ” یہ حکم جب تھا کافروں سے صلح ٹھہر گئئی تھی پھیر دینے پر اب یہ حکم نہیں مگر کہیں ایسی صلح کا اتفاق ہوجاوے۔