فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
پھر جو کوئی نہ پائے تو ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے دو مہینے روزہ رکھے ۔ پھر جو کوئی یہ نہ کرسکے ۔ تو ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے ۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے۔
ف 4 اگر بلا عذر ایک روزہ بھی ناغہ کرے تواز سر نو دو مہینے کے روزے رکھے اور اگر عذر سے ناغہ کرے۔ (جیسے سفر یا بیماری کی وجہ سے) تو امام سعید بن مسیب حسن بصری مالک اور شافعی کہتے ہیں کہ صرف بقیہ روزے پورے۔ اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ دوبارہ از سر نو دو مہینے کے روزے رکھے۔ (فتح القدیر) ف 5 ضروری نہیں کہ سب کو ایک وقت میں کھانا کھلائے، بلکہ یہ جائز ہے کہ بعض کو ایک دن کھانا کھلائے اور بعض کو کسی اور دن۔ (فتح القدیر) ف 6 اصل لفظ’’ كَافِرِينَ ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نہیں مانتے، وہ حقیقت میں کافر ہیں چاہے مردم شماری کی رو سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہوں۔ ف 7 حضرت ابن عباس(رض) کا بیان ہے کہ جب ظہار کا یہ حکم نازل ہوا تو رسول اللہ (ﷺ) نے خولہ سے فرمایا :” جائو اپنے خاوند سے کہو کہ ایک غلام آزاد کرے۔“ خولہ نے کہا ” یا رسول اللہ ! (ﷺ)وہ غریب سے اور اس کے لئے غلام آزاد کرنا ممکن نہیں۔“ فرمایا ” تو اسے چاہئے کہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے۔ خولہ نے کہا ” اللہ کی قسم وہ بہت بوڑھا ہے۔ روزے رکھنے کی اس میں طاقت نہیں۔ فرمایا ” تو اسے چاہئے کہ ایک وسق کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔“ خولہ نے کہا ” اس کے لئے ایسا کرنابھی ممکن نہیں۔“ فرمایا ” اچھا تو میں ایک عرق (پیمانہ) کھجوریں دے کر اس کی مدد کروں گا۔“ خولہ نے کہا ایک عرق میں دونگی فرمایا تم نے بہت اچھا کیا جائو اتنی کھجوریں اس کی طرف سے صدقہ کر دو اور اپنے چچا کے لڑکے( یعنی اپنے شوہر) سے اچھا برتائو کیا کرو۔“ (فتح القدیر بحوالہ بیہقی۔ ابن مردویہ وغیرہ)