الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
ان کے لئے جو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے خدا کو یاد کرتے ہیں ، اور آسمان وزمین کی پیدائش میں دھیان کرتے ہیں کہ اے رب تونے یہ عبث پیدا نہیں کیا ، تو پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ (ف ٢)
ف 5 پہلی آیت ربوبیت کی تقریر تھی اب عبو دیت کا ذکر ہے یعنی دل وزبان اور جوارح ہر حالت میں ذکر الہیٰ میں مشغول رہتے ہیں (بیضاوی) اس آیت کے تحت آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر بیٹھ کہ نماز نہ پڑھ سکو تو (لیٹ کر) پہلو پر پڑھ لیا کرو،(ابن کثیر) ف 6 یعنی زمین آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ پر غور وفکر کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ایک ساعت کا غور و فکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔ حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز فرماتے ہیں زبان سے اللہ کا ذکر کرنا اچھا ہے لیکن اللہ کی نعمتوں پر غورو فکر کرنا اس سے بھی بہتر ہے (ابن کثیر) علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطہ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ ک ف 7 عبث نہیں بنایا یعنی اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں (مو ضح) ف 8 یعنی غوروفکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کا کا ئنات کا یہ سارا نظام یوہی نہیں پیدا کیا گیا بلہ اس کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر وثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب کی سزا بھگتے اس لیے وہ آگ سے محفوظ کئے جانے دعا کرتے رہتے ہیں۔ (وحیدی)