وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جنہیں خدا نے کچھ اپنے فضل سے دیا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا (ف ١) اور زمین وآسمان کی میراث اللہ کی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔ (ف ٢)
ف 5 اور برتر غیب جہاد کے سلسلہ میں جانی قربانی پر زور دیا ہے اور جو حفاظت جان کی خاطر اس سے فرار کرتے ہیں بیس ان کے حق میں وعید سنائی ہے۔ اب یہاں جہاد میں مالی قربانی پر زور دیا جارہا ہے اور بخل کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ (کبیر) مقصد یہ ہے کہ ان منافقین کو جس طرح اپنی جان پیاری ہے اسی طرح ان کو اپنا مال بھی پیارا ہے۔ جو لوگ مال کے حقوق ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے وبال بن جائے گا۔ ؟ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کچھ مال دیا ہے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے مال کو ایک گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گیا اور وہ طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ اسے اپنے دونوں جبڑوں سے بکڑے گا اور اس سے کہے گا۔ میں ہوں تمہارا مال میں ہوں تمہارا خزانہ پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن کثیر) یادرہے کہ حقوق واجبہ کر ادا نہ کرنے کا نام بخل ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ بخل سے بڑھ کر اور کون سامرض ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) نیز دیکھئے۔ التوبہ آیت 35) ف 6 یعنی جب زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جس مال کے بظا ہر تم وارث بنائے گئے ہو اس میں بخل کیوں کرتے ہو۔۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ اللہ وارث ہے آخرتم مر جا و گے اور مال اسی کا ہو رہے گا۔ تم اپنے ہاتھ سے دو ثواب پا و (موضح )