سورة الفتح - آیت 11

سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو گنوار جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ عنقریب تجھ سے یوں کہیں گے کہ ہمارے مالوں اور گھر والوں نے کام میں لگا رکھا ۔ سو تو اللہ سے ہمارا گناہ بخشو (تویہ) اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں تکلیف دینے کا ارادہ کرے یا تمہیں نفع پہنچانا چاہے ۔ تو خدا کے مقابلہ میں کون ایسا ہے جو تمہارے لئے کسی شئے پر اختیار رکھتا ہو ۔ بلکہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 11 یعنی حدیبیہ کے سفر میں آپ کے ساتھ نہیں گئے۔ یہ مدینہ منورہ کے گرد رہنے والے قبائل … غفار، مزینہ، جھینہ، اسلم اور اشجع وغیرہ … کے لوگ تھے۔ ف 12 یعنی یہ منافق ہیں اور آپ کو جھوٹا سمجھتے ہیں اس وقت جو آپ سے استغفار کی درخواست کر رہے ہیں۔ یہ ان کی ظاہری ضدی ہے ورنہ حقیقت میں یہ اپنی کسی حرکت پر نادم نہیں ہیں۔ ف 1 یعنی یہ تمہارا خیال قطعاً غلط ہے کہ تم گھروں میں بیٹھ رہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائو گے اگر وہ تمہارے گھروں میں عذاب بھیجن ا چاہے تو تم بچ نہیں سکتے۔ ف 2 یعنی وہ جانتا ہے کہ تمہارا گھروں میں بیٹھے رہنا بال بچوں کی نگہداشت اور ان میں شغل کی وجہ سے نہ تھا۔ یہ برا بہانہ ہے۔ درحقیقت تمہارے دلوں میں نفاق بھرا ہوا تھا۔