فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
سو جب تم کافروں سے لڑو ۔ تو ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم ان میں خونریزی کرچکو تو ان کی مشکیں باندھ لو ۔ اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر ۔ یہاں تک کہ لڑائی میں اپنے ہتھیار رکھ دے یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو (خود) ان سے بدلہ لے لیتا ۔ لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تم میں سے بعض کو بعض سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کے اعمال (ف 1) وہ ہرگز نہ کھوئے گا۔
ف 1 مسلمان اور کافر کے مابین امتیازظاہر کرنے کے بعد اب کفار سے جہاد کا حکم فرمایا یہاں کافروں سے مراد مشرکین اور اہل کتاب ہیں بشرطیکہ وہ ذمی نہ ہوں اور نہ ان سے معاہدہ ہو (قرطبی) ف 2 قید کرنے کا یہ حکم اس وقت ہے جب کافروں کا زور ٹوٹ چکا ہو اور اگر ان کا زور نہ ٹوٹا ہو تو قید کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ (سورہ انفال 68,67) میں گزر چکا ہے کہ جنگ بدر میں جب مسلمانوں نے کافروں کو قتل کرنے کی بجائے ان سے فدیہ لینے کا فیصلہ کرلیا، حالانکہ ان کا زور نہ ٹوٹا تھا تو اس پر عتاب نازل ہوا۔ ف 3 بعض کے نزدیک یہ حکم آیت İفَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْĬ اور دیگر آیات قتال سے منسوخ ہوچکا ہے اور نابالغ بچے اور عورتوں کے سوا تمام قیدیوں کو قتل کرنا ضروری ہے مگر جمہور علما اور ائمہ تحقیق نے اس آیت کو محکم (غیر منسوخ) تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسیران جنگ کو فدیہ لے کر یا احسان رکھ کر چھوڑ دینے میں حکومت کو اختیار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی قیدی واجب القتل ہے تو اسے قتل کردیا جائے چنانچہ آنحضرتﷺ نے بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل فرمایا اور ان کے علاوہ باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا اور متعدد مواقع پر قیدیوں کو احسان رکھ کر رہا کردیا گیا۔ مثلاً بنی ہو ازن کے قیدی ازراہ احسان چھوڑ دیئے۔ الغرض حکومت کو اسلامی مصلحت کے پیش نظر(1) قتل کرنے، (2)غلام بنا کر رکھنے(3) اور فدیہ لے کر(4)یا احسان رکھ کر چھوڑ دینے میں ہر طرح سے اختیار حاصل ہے۔ (قرطبی ابن کثیر) ف 4 یعنی حتی کہ دشمن کو شکست ہوجائے یا اس سے صلح ہوجائے۔ ف 5 یعنی تمہاری آزمائش کرلے کہ کون اس کے راستہ میں جہاد کرتا اور ثابت قدم رہتا ہے اور کون بھاگتا ہے تاکہ ثابت قدم رہنے والوں کو جہاد کا ثواب نصیب ہو اور کافران کے ہاتھ سے قتل ہوں۔ بعض تابعین کا خیال ہے کہ یہ آیت غزوہ احد کے دن نازل ہوئی جس میں بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے اور کفار نے’’ اعْلُ هُبَلْ ( ہبل بت )کی فتح کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں نے انکے جواب میں ’’اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّکا نعرہ بلند کیا اور مشرکوں نے کہ :” لَنَا عُزَّى، وَلَا عُزَّى لَكُمْ “ اس پر مسلمانوں نے کہا :” اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ۔“ اس کا مفصل بیان سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے۔ ف 6 یعنی ان کی محنت ٹھکانے لگائے گا، انہیں جنت کی راہ پر گامزن کرلے گا اور آخرت میں پیش آنیوالی تمام منازل و مواقف میں ان کی حالت کو درست رکھے گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ شہید کو قرض کے سوا ہر چیز معاف کردی جائے گی۔ (ابن کثیر)