سورة آل عمران - آیت 164

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بےشک خدا نے مومنوں پر احسان کیا کہ ان میں انہیں کے درمیان سے ایک رسول اٹھایا کہ اس کی آیتیں ان پر پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا اور کتاب اور کام کی بات سکھاتا ہے ، اگرچہ وہ پہلے صریح گمراہی میں تھے ۔ (ف ٢)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمی ٰ ہونے کی اعتبار سے آنحضرت ﷺ کو وجود تمام دنیا کے لیے احسان ہے مگر استفادہ کے پیش نظر یہاں سرف مومنین پر احسن کا ذکر ہے۔ (رازی) من انفسھم یعنی انہی کی جنس سے ان جیسے بشر ہیں۔، (قرطبی) او پر کی آیت میں جب یہ بیان فرما دیا کہ خیانت اور غلول ایک نبی کی شان سے بعید ہے اور نبوت و خیانت یکیجا جمع نہیں ہو سکتے تو اب اس آیت میں سی کی مزید تاکید فرمائی کہ آنحضرت ﷺ کو ایک پاکیزہ اور اعلی نصب العین دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ ان کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے اور ذائل سے پاک کیا جائے۔ پھر ایسی پاکیزہ ہوہستی کی طرف جو اتنے عظیم مقصد کے حصول کی خاطر مبعوث ہوئے ہوں کوئی عقلمند آدمی غلول کی نسبت کیسے کرسکتا ہے یا کسی کے دل میں یہ خیال کیسے آسکتا ہے کہ آپ ﷺ خیانت جیسے کبیرہ اور مذموم فعل کا ارتکاب کرسکتے ہیں (رازی) آنحضرتﷺ نے بہت سی آحادیث میں اسی معصیت کو کبیرہ قرار دیا ہے۔ حتی کہ فرما یہ کہ حکام کا ہد یہ قبول کرنا بھی غلول میں داخل ہے۔ (قرطبی)