سورة الأحقاف - آیت 21

وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور تو عاد کے بھائی (ہود) (ف 2) کو یاد کر جب اس نے احقاف میں (کہ ملک یمن میں ایک میدان ہے) اپنی قوم کو ڈرایا اور ہود (ف 3) کے پہلے اور پیچھے بہت ڈرانے والے گزر چکے ہیں ۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں بڑے دن کے عذاب سے تمہاری نسبت ڈرتا ہوں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 توحید و نبوت کے دلائل پیش کرنے کے بعد قوم عاد کا قصہ بیان فرمایا کہ اہل مکہ اس سے عبرت حاصل کریں (رازی) أَحْقَاف، حقف کی جمع ہے۔ ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو حِقْفٌ کہتے ہیں۔ یہاں ” أَحْقَاف “ سے مراد یمن کے مشرق میں حضرموت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے حضرت ہود کی قوم عاد اسی علاقہ میں آباد تھی۔ لیکن آج وہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔ ف 3 یعنی قیامت کے دن کا ۔پس یہاں عَظِيمٍ يَوْمٍ کی صفت ہے اور اس دن کی ہولناکی اور سختی کے پیش نظر اس کو بڑا دن کہا ہے بعض نے لکھا ہے کہ یہاں عَظِيمٍ اصل میں عَذَابَ کی صفت ہے اوراس کا مجرور ہونا یوم کے متصل آنے یعنی جوار کی وجہ سے ہے۔ (روح)