وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ
اور جس دن کافر آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے (تو کہا جائے گا کہ) تم اپنی دنیا کی (ف 1) زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے اور ان سے فائدہ اٹھا چکے سو آج تم ذلت کے عذاب کی سزا پاؤ گے اس لئے کہ تم ملک میں ناحق تکبر کرتے تھے ۔ اور اس لئے کہ تم نافرمان تھے
ف 1 استکبار سے مراد ایمان سے انکار فسق سے دوسرے گناہ مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ ذلت کے عذاب کے دو سبب ہونگے دنیا میں ناحق اکڑنا اور غرور گھمنڈ میں پھنس کر حق کے ماننے سے انکار اور دوسرا فسق یعنی معاصی اور یہ دونوں باتیں کفار کا شیوہ ہیں مسلمان کو اس سے پناہ مانگنی چاہئے۔ واضح رہے کہ بہت سی احادیث میں عیش کو شی اور تہمت پرستی کی مذمت کرے۔ اسی کے پیش نظر حضرت عمر زہد کی زندی بسر کرتے اور دوسروں کو بھی زاہد اختیار کرنے کی ترغیب دیتے اور اس اندیشہ کا اظہار کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی زندگی کی لذات میں مستغرق ہو کر اس آیت کے مصداق بن جائیں ورنہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بن کر دنیا کا مصداق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کے درجات میں کمی آسکتی ہے جیسا کہ بعض صوفیہ نے سمجھا ہے۔ اسی کے پیش نظر حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ ھذا من باب الزھد“ یعنی حضرت کا لوگوں کو گوشت وغیرہ عمدہ کھانوں سے منع کرنا زاہد کے طور پر تھا اور نہ یہ آیت کفار قریش کے حق میں نازل ہوتی ہے۔ واللہ