سورة الأحقاف - آیت 9

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ میں کچھ نیا رسول نہیں ہوں اور میں (محض قیاس سے) نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔ ( البتہ جو جانتا ہوں وہی خدا سے یقینی جانتا ہوں) میں تو اسی تابع ہوں ۔ جو بذریعہ وحی مجھ پر نازل ہوتا ہے اور میں تو صرف کھول کر ڈر سنانے والا ہوں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 بلکہ مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر دنیا میں آچکے ہیں اور ان کی دعوت وہی رہی ہے جو میری ہے۔ “ ف 4 آیا مکہ میں رہوں گا یا اس سے نکال دیا جائونگا اور کیا طبعی طریق پر وفات پائوں گا یا دشمنوں کے ہاتھوں شہید کردیا جائیگا ف 5 کیا تم پر عذاب ابھی آئیگا یا تمہیں مزید مہلت دی جائیگی؟“ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جن کے متعلق آنحضرت کو بے خبر ہونے کا اعلان کردینے کا حکم دیا گیا۔ رہی آخرت ! تو آنحضرت کو معلوم تھا کہ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے متعین کو جنت اور تکذیب کرنے والوں کو دوزخ نصیب ہوگی۔ ابن جریر وغیرہ نے آیت کے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ مگر بعض نے آیت کے مفہوم کو عام رکھا ہے کہ آنحضرت کو آخرت کے بارے میں بھی معلوم نہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا معاملہ درپیش آنیوالا ہے۔ اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت ام العلا بیان کرتی ہیں کہ عثمان بن مظعون کی وفات پر میں نے کہا۔” ابا السائب ! میں تمہارے متعلق شہادت دیتی ہوں کہ تم اللہ کے ہاں عزت دار ہو۔“ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا۔ میں اللہ کا پیغمبر ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میر اور تمہارا حال کیا ہونیوالا ہے علما نے لکھا ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے یہ آیت انا فتحنلک سے منسوخ ہوچکی ہے۔ مگر قرطبی لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری میں دوسری روایت مایفعل بہ“ ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس (عثمان) کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے۔ وھو الصحیح انشاء اللہ تعالیٰ نسخ کی ضرورت نہیں یا یہ کہ حسن تفسیر کو اختیار کیا جائے کہ دنیا میں جو عوارض پیش آنیوالے ہیں ان کا مجھے تفصیلی علم نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی خاص آدمی کے لئے قطعی ہونے کا حکم لگانا صحیح نہیں ہے بجز ان لوگوں کے جٹکے جنتی ہونے کی شارع نے تصریح کی ہے جیسے عشرہ مبشرہ (قرطبی، ابن کثیر) ف 6 چاہے وہ حکم قرآن میں آیا ہو یا حدیث میں اس کی خبر دی گئی ہو کیونکہ وحی کا اطلاق کتاب اور سنت دونوں پر ہوتا ہے۔