سورة آل عمران - آیت 137

قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

تم سے پہلے بہت واقعات گزر چکے ہیں سو تم زمین کی سیر کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے۔ (ف ٣)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8 اوپر کی آیات میں طاعت اور معصیت سے توبہ پر غفران اور جنت کا وعدہ فرمایا۔ اب یہاں طاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور فکر کا حکم دیا ہے تاکہ ان میں سے مطیع اور عاصی کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامان عبرت حاصل کرے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) سنت کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کی اتباع کی جاتی ہےیہ فُعلۃ بمعنی مَفْعُولَۃٌہے آنحضرت (ﷺ) کا فعل چونکہ مسلمان کے لیے نمونہ اور طریق مستقیم ہوتا ہے اس لیے اسے سنت کہا جاتا ہے۔(کبیر) جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید ہوگئے اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طو پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ہے کہ اس شکست سےافسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو امم سابقہ اور اورا نبیا (﷩) کے متبعین میں ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکالیف سے دوچار ہونا پڑا اور بالآ خر جھٹلانے والے ذلیل وخوار ہوئے۔ (ابن کثیر )