وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
اور اگر ہم اس کو عجمی زبان کا قرآن کرتے تو (اہل عرب) کہتے ہیں کہ اس کی آیتیں واضح کیوں نہ کی گئیں ، کتاب عجمی ہے اور نبی عربی تو کہہ قرآن ان کے لئے جو ایمان لائے ہدایت اور صحت ہے اور جو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ (قرآن) ان پر ان کی بینائی کا جاتا رہنا ہے ۔ یہی لوگ دور کے مکان سے پکارے (ف 1) جاتے ہیں
ف ٤ یعنی یہ کفار مکہ بھی عجیب شے ہے۔ اگر ان کے پاس انہی میں سے ایک آدمی عربی میں قرآن لے کر آیا ہے تو کہتے ہیں کہ ایک عرب کا عربی قرآن پیش کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال تو اس وقت ہوتا جب یہ شخص کسی عجمی زبان۔ فارسی، رومی یا ترکی میں قرآن پیش کرتا۔ حالانکہ اگر ہم ان کا مطالبہ مان لیتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی عجمی زبان میں قرآن نازل کردیتے تو یہی لوگ اس وقت اعتراض کرتے کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ عربوں کو دعوت دینے کیلئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا گیا ہے لیکن قرآن ایک ایسی زبان میں لے کر آیا ہے جسے عرب سمجھ بھی نہیں سکتے۔ ف ٥ یعنی قرآن اگرچہ رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے لیکن وہ ان کافروں کے حق میں کانوں کا بوجھ اور آنکھوں کا پردہ ہے۔ اس کی وجہ ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب ہے۔ اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں ہے بالکل اسی طرح جس طرح سورج روشنی دینے والی چیز ہے لیکن اس کے طلوع ہوتے ہی چمگادڑ کی آنکھیں چند ھیا جاتی ہیں۔ ف ٦ یہ ایک محاورہ ہے اور اس شخص کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو کوئی بات نہ سمجھتا ہو۔ ( قرطبی) یعنی یہ لوگ قرآن کو دل سے سننے کی کوشش نہیں کرتے صرف اوپری دل سے سنتے ہیں۔ اس لئے اس سے کوئی ہدایت نہیں پاتے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی شخص کو دور سے پکارا جائے اور وہ کوئی آواز تو محسوس کرے مگر مطلب و طلب خاک نہ سمجھے۔